متوازن غذا کی طلب، جانداروں میں فطری نظام
17 مئی 2010حال ہی میں کرنٹ بیالوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مکھیوں کے دماغ میں ایسے جین کا سراغ ملا ہے، جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا کھایا جائے اور کیا نہیں اور اس کے لئے ضروری نیورل برقی لہرکے پائے جانے کا اشارہ بھی ملا ہے۔ پھلوں پر بیھٹنے والی مکھیوں پر یہ تجربات ویانہ میں ڈاکٹر کارلوس ریبائرو اور بیری ڈکسن کی سرپرستی میں ہوئے۔ ان تجربات کے نتائج ملیریا پھیلانے والے مچھروں سے لےکر انسانانوں تک سب پر صادق آتے ہیں۔
کارلوس ریبائرو جو آج کل پرتگال میں اپنی ریسرچ میں مصروف ہیں، انہوں نے مکھیوں میں خوراک کے عمل کا کئی ہفتوں تک جائزہ لیا۔ اور یہ دریافت کیا کہ جانورں میں خوراک کی عادات بدلتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات جانور وہ چیزیں زیادہ شوق سے کھاتے ہیں، جن کی ان کے جسم میں کمی ہوتی ہے۔ خوراک کی یہ عادات نر اور مادہ میں بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔
ان تجربات کے دوران جب ان مکھیوں کو پروٹین اور شکر والی خوراک وافر مقدار میں دی گئی تو کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے اسے ٹھکرانا شروع کردیا۔ اس کے بعد انہیں کچھ دنوں تک پروٹین والی خوراک نہیں دی گئی اور پھر جب انہیں یہ خوراک دوبارہ دی گئی تو یہ دیکھا گیا کہ وہ اسے بڑے شوق سے کھانے لگیں۔ ایک خوراک کو دوسرے پر ترجیع دینے کا یہ عمل نر کے مقابلے میں مادہ مکھیوں میں بہت تیزی سے عمل میں آتا ہے۔
مکھیوں میں خوراک کی ان عادات کا جائزہ لینے کے لئے ان کو دی جانے والے خوراک کو مختلف رنگ دیئے گئے تھے تاکہ دی جانے والی خوراک کا ان کے پیٹ میں مطالعہ کیا جا سکے۔
کارلوس ریبائرو کہتے ہیں کہ ان تجربات اور جین ٹیکنولوجی کے بہت کامیاب طریقوں کی بدولت یہ اس میدان میں ایک اور اہم قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا : ’’ہم اب ان مالیکیولز اور عصبی خلیوں کا طریقہ کار بیان کرسکتے ہیں، جو مادہ مکھیوں میں خوراک کی عادت کی فوری تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مکھیوں کے دماغ میں کون سے مالیکیول پروٹین کی کمی کا پتہ کرتے ہیں اور خوراک کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ ہم اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے یہ مالیکیولر سینسر یا محرک دریافت کرلیا ہے۔‘‘
یہ سینسر جو مکھیوں کے دماغ میں دیکھا گیا، دوسرے انواع کے حیوانات یا سپیشیز میں بھی خوراک کی عادات کی تنظیم کا باعث ہوسکتا ہے۔ انسانوں اور ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانوروں میں بھی ایسے محرکات کے پائے جانے کے امکانات موجود ہوسکتے ہیں۔ لحمیات اور کاربوکائیڈریٹس یا نشاستے کی حامل غذاوں کو جذب کرنے کی خاصیت کی تنظیم ممکنہ طور پر خوراک کی نظام میں خرابی کے علاج میں بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
کارلوس ریبائرو اس تحقیق کے عملی نتائج کے بارے میں کہتے ہیں : ’’جب ہم یہ جان لیں گے کہ یہ محرک یا سینسر کس طرح مکھیوں میں پروٹین رکھنے والی غذا کی طلب کو متاثر کرتا ہے، تو پھر اس سسٹم پر اثر انداز ہونے کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ملیریا پھیلانے والے مچھروں کی مادہ میں خون کی پیاس کو کم کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح ملیریا کے جراثیموں کے پھیلاؤ کا رستہ روکا جاسکتا ہے۔‘‘
رپورٹ : بریخنا صابر
ادارت : عاطف توقیر