محمد بن سلمان: ایک اصلاحات پسند لیکن سخت گیر لیڈر
28 ستمبر 2017کاروبار کی دنیا کے ایک بہت بڑے نام اور گلوبل بزنس ایڈوائزر میکنزی یا بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے لیے سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض ایک امیر، روشن اور متحرک شہر ہے۔ کاروبار کی دنیا میں قدامت پسند یا غیرجمہوری جیسے الفاظ کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
ان کمپنیوں نے سعودی لیڈر شپ کو ’وژن 2030 ‘ کا منصوبہ بنا کر دیا ہے۔ کس طرح یہ بادشاہت اور خود کو جدید اور اپنا انحصار تیل پر کم سے کم کر سکتی ہے؟ کس طرح تیل کی سرکاری کمپنی ارامکو کو پرائیویٹائز کیا جا سکتا ہے؟ کس طرح آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کیے جائیں اور سعودی شہریوں کو ملازمتیں دی جائیں؟ سعودی عرب کے اس منصوبے کے پیچھے بتیس سالہ محمد بن سلمان کا ہی ہاتھ ہے کیوں کہ دنیا کے سامنے وہ اپنا امیج ایک اصلاحات پسند لیڈر کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
آل سعود سے متعلق وہ حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں
محمد بن سلمان کو ریاض کے طاقت کے حلقوں میں ’ایم بی ایس‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ رواں برس جون سے پہلے ان کا نام کم ہی لوگ جانتے تھے۔ وہ اس وقت دنیا کے سامنے آئے، جب موجودہ اکیاسی سالہ شاہ سلمان نے محمد بن نائف کی جگہ محمد بن سلمان کو ولی عہد قرار دے دیا۔ موجودہ شاہ سلمان کی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے اور عملی طور پر سعودی عرب کا اقتدار ابھی سے محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہے۔
محمد بن سلمان متاثر کن بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ’خوفناک‘ بھی۔ انہوں نے اپنا سیاسی کیریئر ریاض کے گورنر کے طور پر شروع کیا تھا اور بعدازاں اپنے والد کے خصوصی مشیر بھی بنے۔ سن دو ہزار بارہ میں انہیں ایک وزیر کا درجہ دیتے ہوئے چیف آف کورٹ بنا دیا گیا۔ جونہی ان کے والد سعودی عرب کے بادشاہ بنے، محمد بن سلمان کو وزارت دفاع کا عہدہ دے دیا گیا، جو آج بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔
اس وقت ان کے پاس متعدد عہدے ایک ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن اخبار ’دی سائٹ‘ نے انہیں’بدعنوان، لالچی اور خود غرض‘ قرار دیا تھا۔ ان کے آتے ہی سعودی عرب کے ایران کے ساتھ تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر چلے گئے اور سعودی عرب نے امریکا کہ مدد سے یمن میں جنگ کا آغاز کر دیا۔ نتیجے کے طور پر اس وقت یمن میں بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ قطر کے ساتھ ’سفارتی جنگ‘ جاری ہے۔ محمد بن سلمان کی سخت خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے انہیں ’جنگی شہزادہ‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
متعدد عہدوں کے باوجود محمد بن سلمان کے پاس بین الاقوامی سفارت کاری کا تجربہ بہت کم ہے اور ان کی تعلیم بھی محدود ہے۔ کنگ سعود یونیورسٹی سے انہوں نے اسلامی قوانین میں صرف بیچلر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
محمد بن سلمان کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات منظر عام پر آ سکی ہیں۔ صرف یہی معلوم ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں اور چار بچوں کے باپ ہیں۔ تاہم محمد بن سلمان کے زیر سایہ ہی اب سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔ حال ہی میں پہلی مرتبہ سعودی خواتین کو کھیل دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم جانے کی اجازت بھی ملی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو محمد بن سلمان اصلاحات پسند بھی ثابت ہو رہے ہیں اور ایک سخت گیر رہنما بھی۔