1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہب کا سوال، جرمنی میں لادین ہونے کی بنیاد پر سیاسی پناہ؟

5 مئی 2018

جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو الحاد کو جواز بنا کر پناہ کے خواہاں ہیں۔ لیکن اس حوالے سے جرمن قوانین بہت واضح نہیں ہیں، کیوں کہ مذہب کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2xEE3
Symbolbild Religionen
تصویر: picture alliance/Godong/Robert Harding

جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے ملحد ہونے کو بطور جواز پیش کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی مسلم اکثریتی معاشروں میں اسلام چھوڑ کر لادین ہو جانا قابل سزا جرم بھی ہے۔ بعض ممالک میں تو اس پر موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟

اس کے باوجود جرمنی اور کئی دیگر یورپی ممالک میں ملحد ہونے کی وجہ سے جبر کا سامنا کرنے کی بنیاد پر پناہ کی تلاش میں آنے والوں کو سیاسی پناہ دینے یا نہ دینے کے فیصلوں میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔

جرمنی میں اسلام چھوڑ کر ملحد ہو جانے والے افراد کی کونسل کی سربراہ مینا احدی کا کہنا ہے کہ وہ کئی برسوں سے مسلم ممالک سے آئے ہوئے ایسے تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے لیے قوانین میں تبدیلیوں کی وکالت کر رہی ہیں۔ انفومائگرینٹس نامی ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے احدی کا کہنا تھا، ’’موجودہ صورت حال سے ہم خوش نہیں ہیں۔ ماضی میں کچھ جرمن عدالتوں نے تو سیاسی پناہ کے حصول کے جواز میں ملحد ہو جانے کو یہ کہتے ہوئے درست جواز تسلیم نہیں کیا کہ مذہب کسی بھی شخص کا نجی معاملہ ہے۔‘‘

انفرادی درخواستوں کے جائزے کے بعد فیصلے

اس حوالے سے بی اے ایم ایف کا کہنا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے، ان کا انفرادی جائزہ لینے کے بعد کیے جاتے ہیں۔

انفومائگرینٹس کے اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق اس وفاقی دفتر نے بتایا، ’’سیاسی پناہ کی درخواست قبول یا مسترد کیے جانے کا انحصار نہ تو درخواست گزار کے پس منظر پر ہے، نہ ہی اس کے مذہب اور نہ ہی اس کے لادین ہونے پر۔‘‘

بی اے ایم ایف کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کے خواہش مند افراد کو انٹرویو میں یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ جرمن حکام کو بتائیں کہ وطن واپسی کی صورت میں ان کی جانوں کو کن بنیادوں پر خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

’الحاد کا مطلب موت‘

مینا احدی کا تاہم کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کے بارے میں فیصلے کرنے والے اہلکاروں اور عدالتوں کے ججوں کو اس معاملے کی شدت کا اندازہ نہیں ہے۔

احدی کا کہنا تھا، ’’وہ دوسرے ممالک کے زمینی حقائق سے واقفیت نہیں رکھتے۔ کئی جج اس بارے میں دستاویزی ثبوت مانگتے ہیں، ہمارا ادارہ ایسے پناہ گزینوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور ہر قسم کے شواہد جمع کرائے جانے کے باوجود ملحدوں کو سیاسی پناہ ملنے کا تناسب صرف تیس فیصد ہے۔‘‘

’تحقیق اور معلومات کی کمی‘

انسانیت اور لادینیت کی بنیاد پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم گیورڈونا برونو فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر مشائیل شمٹ سالومون کا کہنا ہے کہ جرمنی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ ان کے بقول، ’’بین الاقوامی قوانین کے مطابق دنیا کے سبھی مذاہب برابر سمجھے جاتے ہیں۔ ہمیں سیاسی پناہ کے قوانین میں بھی اسی اصول کو اپنانا چاہیے۔ اس لیے یہ ایک قانونی نکتہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر سالومون کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ حالیہ برسوں کے دوران اسلام ترک کرنے والے افراد کی جانب سے شروع کردہ آگہی مہموں کے باعث اب بی اے ایم ایف کے اہلکاروں میں اس حوالے سے زیادہ معلومات پائی جاتی ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم اکثریتی ممالک میں ملحدوں کو درپیش مسائل کے بارے میں مزید آگہی کی ضرورت اب بھی موجود ہے۔

ش ح / م م (سیرتان زاندرسن)

غلطی سے ملک بدر کیے گئے افغان شہری کو پھر ملک بدری کا سامنا