مراکش اور اسرائیل ’بہت جلد‘ تعلقات قائم کرنے پر رضامند
11 دسمبر 2020امریکا کی جانب سے مغربی صحارا پر رباط کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے بعد مراکش کے شاہ محمد ششم نے جمعرات کے روز کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ''بہت جلد باضابطہ رابطے اور سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔" اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس معاہدے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ’خطے میں امن کی اور بھی بڑی روشنی‘ ہے۔
اسرائیل اور عرب ممالک متحدہ عرب امارات، سوڈان اور بحرین کے ساتھ حال ہی میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہودیوں کے روشنیوں کے تہوار حنوقہ کے آغاز کے موقع پر جمعرات کو ایک شمع روشن کرنے سے قبل کہا”مجھے ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ یہ تاریخی دن ضرور آئے گا۔"
یہ بھی پڑھیے: فلسطین کے ساتھ کون سا ملک اتحاد قائم کر سکتا ہے؟
نیتن یاہو اور محمد ششم نے دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی براہ راست پروازیں شرو ع ہوجانے اور سفارتی مشن کھل جانے کی امید ظاہر کی۔
فلسطینی مذمت
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازے اور سیاسی تعطل کے سبب عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار کرنا ایک عرصے تک ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ فلسطینیو ں نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی مذمت کی ہے۔
تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکیوٹیو کمیٹی کے ایک رکن باسم الصالحی نے اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا”سن 2002 کے عرب امن پہل، جس میں مقبوضہ فلسطینی اور عرب علاقوں سے اسرائیل کا قبضہ ختم ہونے کے بعد ہی تعلقات قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے، سے کسی طرح کا انحراف، نا قابل قبول ہے۔ اس سے اسرائیل کی جارحیت میں اضافہ ہوگا اور فلسطینی عوام کے حقوق صلب ہوں گے۔"
غزہ میں حکمراں اسلام پسند گروپ حماس کے ترجمان ہازم قاسم نے بھی مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا ”یہ ایک گناہ ہے اور اس سے فلسطینی عوام کا بھلا نہیں ہوگا۔ اسرائیل نئے تعلقات کو فلسطینی عوام پر اپنی جارحیت میں اضافہ کرنے اور بستیوں میں توسیع کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔"
ٹرمپ کا اظہار مسرت
مراکش کے شاہ محمد ششم سے فون پر بات چیت کرنے کے بعد سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی جمعرات کو اعلان کیا کہ مراکش اور اسرائیل باہمی تعلقات قائم کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا”آج ایک اور تاریخی پیش رفت! ہمارے دو عظیم دوست اسرائیل اور مراکش مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ یہ مشرق وسطی میں امن کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔"
وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر جیراڈ کشنر نے کہا کہ ”وہ رباط اور تل ابیب میں فوری طور پر رابطہ دفاتر کھولنے جارہے ہیں جس کا مقصد سفارت خانے کھولنا ہے۔ وہ اسرائیل اور مراکش کی کمپنیوں کے درمیان معاشی رابطوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرنے جارہے ہیں۔"
مزید پڑھیے: اسرائیل اور مراکش کے درمیان براہ راست پروازوں کا جلد آغاز ہوگا، اسرائیلی میڈیا
کشنر نے کہا کہ ”آج انتظامیہ نے ایک اور سنگ میل عبور کرلیا ہے، صدر ٹرمپ نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے لیے ثالثی کی جو اسرائیل کے ساتھ عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ چار مہینوں کے اندر چوتھا معاہدہ ہے۔"
جیرڈ کشنر کا کہنا تھا کہ ”اس سے اسرائیل کی سکیورٹی مزید بہتر ہوگی جبکہ مراکش اور اسرائیل کو اپنے معاشی تعلقات اور شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔"
مغربی صحارا کا تنازعہ
مراکش اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ کیا: ”مراکش نے امریکا کو 1777میں تسلیم کیا تھا۔ اور یہ بات مناسب ہے کہ ہم مغربی صحارا پر اس کی خودمختاری کو تسلیم کررہے ہیں۔‘
مغربی صحارا کا یہ متنازعہ علاقہ ماضی میں ہسپانوی نو آبادیات کا حصہ رہا ہے۔ اس کے بیشتر علاقے پر مراکش کا کنٹرول ہے تاہم الجیریا بھی اس پر اپنا دعو ی کرتا ہے۔
وہائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”صدر نے مغربی صحارا میں مراکش کی خود مختاری کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ صدر نے مراکش کو اپنے تعاون اور مغربی صحارا میں حقیقت پر مبنی خود مختاری کی تجاویز کی حمایت کا یقین دلایا جو پائیدار ہوگی۔"
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل کو تسلیم کرنےکے لیے پاکستان پر دباؤ ہے، ’نہیں ہے‘
مغربی صحارا کی آزادی کے لیے جنگ میں مصروف الجیریائی حکومت کی حمایت یافتہ تنظیم پولیساریو فرنٹ نے امریکا کے فیصلے کو”انتہائی افسوسناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ افسوس ناک لیکن حیران کن نہیں ہے۔‘
اقو ام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس خطے کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
سن 1991میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں اس شرط پر یہاں جنگ بندی ہوئی تھی کہ 1992میں آزادی کے حوالے سے ریفرینڈم کرایا جائے گا۔ مراکش نے تاہم اس میں رخنہ ڈال دیا۔ اقو ام متحدہ کی قیام امن فورس اس خطے میں تعینات ہے۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، روئٹرز)