Kampf für mehr Gleichberechtigung
30 اپریل 2009شمالی افریقہ کے عرب ممالک کی خواتین کی حقوق کے حصول کی جدوجہد:
عرب معاشروں کی زیادہ تر خواتین آج بھی خود کو اپنے ملک میں دوسرے درجے کا شہری محسوس کرتی ہیں۔ مراکش کے مغربی ساحلی علاقے Essaouire عیساویرا میں منعقد ہونے والی عرب خواتین کے پہلی ویمن فورم کی شرکاء نے عرب خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق مختلف آراء اور نظریات پر تبادلہ خیال کیا۔ ان سب کی کوشش ہے کہ عورتوں کو سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی شعبوں میں بہتر سے بہتر مقام حاصل ہو۔ مراکش نے اس ضمن میں خاصی ترقی کی ہے۔ مراکش کی وزیر برائے خاندانی امور نوزہا اسکالی نے ویمن فورم کے موقع پر اپنے ملک میں 2003 میں خاندانی امور سے متعلق قوانین میں ہونے والی اصلاحات پر مسرت کا اظہار کیا۔ اس سے قبل مراکش میں میونسپلٹی کی سطح پر خواتین سیاستدانوں کی شرح بمشکل ایک فیصد تھی تاہم اب 12 فیصد ہو چکی ہے۔ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کے مشیر Andre Azouleازولائے ان اصلاحات پر فاخرانہ انداز میں کہا :یہ اصلاحات دراصل ماضی کی صورتحال کے مقابلے میں انقلاب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بہت گہری اور اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس نے لوگوں کی سوچ اور نظریات کو تبدیل کر دیا ہے اور اس طرح ایک نیا ثقافتی ماحول پیدا ہوگیا ہے۔:
دوسری جانب حقوق نسواں کیلئے سرگرم ایک مراکشی خاتون غزلین بن عشیر جو مراکشی دارلحکومت رباط کی ایک لوکل مشاورتی کمیٹی کی روح رواں ہیں اپنے ملک میں خواتین کے حقوق کے بارے میں مختلف رائے رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق انکی ہم وطن عورتوں کی کوشش ہے کہ خواتین کو معاشرے میں آگے سے آگے لانے کے لئے 2003 کی اصلاحات کا بہترین مصرف تلاش کیا جا سکے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ انکے مخالفین بھی کافی ہیں، نہ صرف دینی بلکہ ترقی پسند حلقوں میں بھی۔ اس کے باوجود انکے معاشرے نے غیر معمولی ترقی کی ہے اورانہیں امید ہے کہ کبھی نہ کبھی مراکشی خواتین کو بھی مساوی حقوق مل سکیں گے۔:
تیونس میں خواتین کی صورتحال:
اسی قسم کی خواہش کا اظہار مراکش کے پڑوسی ملک تیونس کی جمہوریت پسند خواتین کی ایک انجمن کی صدر خدیجہ شریف نے بھی کیا۔ اس تنظیم کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا اور اس نے خواتین کی آزادی کیلئے ایک طویل جدو جہد بھی کی ہے۔ 1956 میں تیونس کی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد صدر حبیب بورقیبا نے اِس ملک کی خواتین کو جن مساوی حقوق سے نوازا تھا اس کی مثال آج تک کسی دوسرے عرب ملک میں نہیں ملتی۔ تیونس میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر پابندی لگا دی گئی، بیویوں کے ساتھ زیادتی ممکن نہ رہی اور میاں بیوی کی علٰیحدگی کے معاملے کوعدالت کے سپرد کر دیا گیا۔ نکاح یا عقد کے لئے لڑکی کی رضامندی لازمی قرار دے دی گئی۔ عورتوں کو یہ حقوق ملنے سے کچھ عرصہ پہلے تک تیونس میں عورتیں اپنے ووٹ کے حق کی جنگ لڑ رہی تھیں۔ 2008 کے اواخر میں تیونس کی جمہوریت پسند خواتین نے ایک تنقیدی میزانیہ پیش کیا۔ 164 صفحوں پر مشتمل اس مسودے کا عنوان تھا: خواتین اور جمہوریہ ۔ مساوی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد:
اس انجمن کی صدر خدیجہ شریف کہتی ہیں کہ انکے لئے اب بھی انکی ہم وطن خواتین کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر طرف یہی کہا جا رہا ہے کہ تیونس میں حکومت نے خواتین کو بہت سے حقوق دئے ہیں۔ جبکہ روزمرہ کی زندگی میں عورتوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں ہوئے ہیں اور ہمیشہ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ قوانین میں تبدیلی خواتین کے حق میں کی جائے۔ آزادیء رائے کے فقدان والے موجودہ دور میں خدیجہ اپنے ملک کو پیچھے جاتا دیکھ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ تیونس کی عورتوں کے عدم اطمینان کا باعث بن رہا ہے۔:
خدیجہ کا ماننا ہے کہ حجاب والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی شکایات کا فہرست طویل ہے۔ مثلاٍ انکا کہنا ہے کہ : خواتین کو ابھی بھی مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں ملتی ہیں۔ غربت سے سب سے زیادہ عورتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ بقاء کی جدو جہد کرنے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گھریلو کام کاج کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے، پیشہ ورانہ کام انجام دینے والی زیادہ تر خواتین اب گھروں کے کام کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ قدیم روایات دوبارہ سے زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ۔:
پیرس میں زندگی بسر کرنے والی ایک جلاء وطن ایرانی ماہر سماجیات شھلا شفیق ایک عرصے سے اپنے وطن میں خواتین کی صورتحال میں بہتری کی جدو جہد کر رہی ہیں۔ انہیں ایک اسلامی اور ایک مطلق العنان حکومت کے مابین بہت زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ تیونس حکومت حقوق نسواں کیلئے سرگرم خواتین کے مطالبات سنتی ہے جبکہ تہران حکومت تحریک نسواں سے منسلک عورتوں کو سزا کا مرتکب سمجھتی ہے، گویا ایران حکومت حقوق نسواں کے تصورکو رسم و رواج کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ شھلا شفیق کا ماننا ہے کہ ایک مطلق العنان ریاست میں خواتین کے حقوق کی جدو جہد کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔
عرب ویمن فورم کی حقوق نسواں کے لئے سرگرم خواتین کی کوشش ہے کہ مختلف رسم و رواج اوراقدار والے معاشروں کی خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ تاہم ان خواتین کے خیال میں عالمی انسانی حقوق کے فروغ کو مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔
مراکش کی مختصر تاریخ:
مراکش جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے شمالی افریقہ کے قلب کی حیثیت رکھنے والے اس خطے میں واقع ہے جسے مغرب کہتے ہیں۔ بحیرہء روم کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے علاقے مغرب میں الجزائر، موریطانیہ، تیونس اور لیبیا شامل ہیں۔ مراکش کو مکمل آزادی 1956 میں حاصل ہوئی۔ 1961 میں مراکش کے بادشاہ حسن دوم نے آئینی بادشاہت کے تحت ملک کی باگ ڈور سمبھال لی تھی۔ 1999 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے محمد ششم تخت نشین ہوئے۔ مراکش کی آبادی 27 ملین ہے اسکا 70 فیصد عرب اور 30 فیصد بربر نسل کے باشندوں پر مشتمل ہے۔ بربر آبادی کی وجہ سے مراکش کو ایک کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی ملک مانا جاتا ہے۔ عرب دنیا کے مغربی حصے کو مشرقی حصے کے مقابلے میں اُس کے ثقافتی تنوع کی وجہ سے زیادہ دلچسپ سمجھا جاتا ہے۔ مراکش میں عربی، فرانسیسی اور بربر زبان بولی جاتی ہے جبکہ اس کے بعض ساحلی علاقوں پر ہسپانوی ثقافت اور زبان کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔
پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کے کثیر الثقافتی ملکوں میں ہوتا ہے۔ ماہرین اور مبصرین کے نزدیک اس معاشرے کی مجموعی ترقی کی صورتحال پر ہی پاکستان کی خواتین کے مسائل کا انحصار ہے۔
کشورمصطفٰی/ امجد علی