مرتی ماں، مردہ بچہ اور کُھلا پھرتا ہے مردانہ
28 جولائی 2021کیونکہ آپ کے ساتھ زنانہ ہے تو آپ ادھر چھپ کر بیٹھیں۔ میں خدمت گزار (ویٹر) کو کہتا ہوں کہ ہم یہاں عام لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے ؟ وہ عجیب نظروں سے دیکھتا ہے اور پھر اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے، لیکن زنانہ ادھر بیٹھتا ہے۔ میں اسے پاس بلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ جو میرے ساتھ زنانہ ہے کیا اس سے یہاں بیٹھے مردوں کو کوئی خطرہ ہے؟ یہ تو کمزور سا زنانہ ہے تو اس سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
خدمت گزار کی کھلی آنکھوں میں حیرت ہوتی ہے اور کہتا ہے صاحب ادھر مردانہ ہے تو یہاں یہ بیٹھے گی تو سب اسے دیکھیں گے ۔ میں خدمت گزار سے پوچھتا ہوں کہ اچھا۔۔ اوہ ۔۔ تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہاں بیٹھے مردانہ سے میرے ساتھ کھڑے زنانہ کو خطرہ ہے؟ تو تم یہ سب مردانہ کو ادھر پردے لٹکے نکڑ میں بٹھاؤ، زنانہ جب بے ضرر ہے، کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا تو وہ تمہاری تجویز کردہ قید کو کیوں بھگتے؟ خدمت گزار خاموشی سے چلا جاتا ہے اور ہم مردانہ میں بیٹھ جاتے ہیں۔
ایک دس برس پرانا قصہ یاد آیا۔ شمال میں ایک دفعہ غیر ملکی سیاح آئی۔ اس نے شاید کوئی ٹریک وغیرہ بھی کرنا تھا۔ سکیورٹی کی غرض سے اس کے ساتھ ہر وقت ایک اہلکار بندوق تھامے پھرتا رہتا۔ اس بیچارے کی ڈیوٹی تھی لیکن وہ غیر ملکی سیاح شدید رنجیدہ تھی۔ ایک دفعہ وہ واش روم سے نکلی تو وہ اہلکار باہر کھڑا تھا۔ اس نے کہا کہ تم ہر وقت میرے ساتھ کیوں ہو، میں یہاں سیر کرنے آئی ہوں اور تم ہر وقت سائے کی طرح میرے پیچھے ہو۔ اس نے کہا میڈم، میری مجبوری ہے اور آپ کی حفاظت کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ غیر ملکی سیاح نے کہا او کے، تم یہ کہہ رہے ہو کہ کچھ برے لوگوں سے مجھے خطرہ ہے اور تم اس لیے میرے ساتھ ہو تاکہ وہ برے لوگ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس نے کہا جی میڈیم، بالکل! آپ نے درست کہا ہے میں آپ کا محافظ ہوں۔ غیر ملکی سیاح نے کہا کہ تمہارے ہاتھ میں ہتھیار ہے تو تمہیں چاہیے کہ تم ایسے برے لوگوں سے لڑو کیونکہ وہ مجرم ہیں لیکن ان کے جرم کی سزا مجھے کیوں دے رہے ہو؟ تمہارے یوں ہر وقت ساتھ ہونے سے مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ شاید میں نے کوئی جرم کیا ہے؟
ان قصوں کو ذہن میں رکھیے اور آگے بڑھتے ہیں۔ کل ایک ویڈیو دیکھی۔ سرخ جوڑے میں ملبوس ایک ماں برے حال میں بیٹھی ہے۔ ساتھ اس کا چودہ ماہ کا مردہ بچہ پڑا ہے۔ ماں خود بھی زخمی ہے جو کچھ دیر بعد خود بھی فوت ہو جاتی ہے۔ جب یہ ماں زندہ تھی اور سکتے میں تھی تو یہ مختصر سا ویڈیو کلپ بنا۔ ماں کے تاثرات سے جیسے میرا دل بند ہونے کو تھا۔ تاثرات کیا تھے ہماری چوہتر برس کی کمائی کی داستان تھی اور داستان بھی مفصل۔
کیوں کہ یہ ویڈیو کہیں اور نہیں دیکھی تو دل یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کرے معاملہ کوئی اور ہو۔ خدا کرے بچہ بے ہوش ہو۔ خدا کرے ان ماں بچوں کو کسی وحشی نے چاقووں سے زخمی نہ کیا ہو۔ خدا کرے چودہ ماہ کے بچے نے ماں کا ریپ ہوتا نہ دیکھا ہو۔ خدا کرے ویرانے میں بے بس بچہ دھاڑیں مار مار کر نہ چیخا ہو۔ خدا کرے ماں کو چاقووں اور دوسرے زخموں سے چور نہ کیا گیا ہو اور خدا کرے کہ کائنات نے ایسا منظر نہ دیکھا ہو کہ مٹی میں رگیدی گئی ماں کی توجہ اپنے زخموں سے زیادہ بچے کی چیخوں پر مرکوز رہی ہوں۔ اور خدا نہ کرے کہ اس وحشی نے ماں کے سامنے اس بچے کو چاقو مارے ہوں۔ لیکن خدا نہ کرے کی تکرار سے کیا ہو گا؟ ایسا ہوا، پھر ماں بھی مر گئی۔ مرنا بنتا تھا، ایسی ماں نے جی کر کیا کرنا تھا؟ جتنا جیتی، چیخیں مارتی رہتی۔
لیکن یہ سب وائرل کیوں نہ ہوا؟ تفصیل جانی تو علم ہوا کہ یہ کوئی بھکاری عورت تھی۔ بھکاری عورت کا بھکاری بچہ۔ شاید ان پر ہونے والا ظلم ہم کو زیادہ متاثر نہ کر سکا۔
صبح آنکھ کُھلی تو ٹی وی لگایا۔ خبریں آ رہی تھیں، چھ سال کی بچے کو زیادتی کے بعد فصلوں میں پھینک دیا گیا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اس ملک میں انسانیت کی رمق رکھنے والوں کے چلا چلا کر گلے خشک ہو گئے ہیں لیکن ہمارے سروں پر مسلط چوہے بہرے ہیں۔ یہاں کسی بھی ایسے واقعہ پر عوام کا ردعمل جاننے کی کوشش کریں پورے ملک میں آپ کو اس حوالے سے اتفاق ملے گا کہ ایسے جرائم میں ملوث مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے اور انہیں کسی چوک میں چیر پھاڑ دیا جائے۔ آپ کو پورے ملک میں بہت کم ایسی عقلی آوازیں سننے کو ملیں گی، جو یہ کہیں کہ عورتوں اور بچوں کو طاقتور کیا جائے۔ نفسیات ایسے جرائم کے خاتمے کا حل یہی بتاتی ہے کہ ایسے کمزور طبقات، جو اس طرح کے جرائم کا شکار ہو سکتے ہیں، ان کو طاقتور کیا جائے۔کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ کسی امیر تعلیم یافتہ خاتون کی جانب ریپسٹ کے ہاتھ کیوں نہیں بڑھتے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ طاقتور ہے (حالیہ نور مقدم جیسا کیس ایک غیر معمولی نایاب اور مختلف معاملہ ہے)۔ چیر پھاڑ اور سر عام پھانسی ایک ایسا وقتی علاج ہے، جو مبنی بر خوف ہے۔ ایسا علاج تا دیر موثر نہیں رہ سکتا۔ اور کو ئی بھی ایسا علاج جو مبنی برخوف ہو اس کے معاشرے پر اپنی طرز کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرز کا قدم ہنگامی اور نظریہ ضرورت کی بنیادوں پر اٹھایا بھی جا سکتا ہے لیکن مستقل علاج کے کے لیے طویل المدتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ عذاب یہ ہے کہ ہمارے سروں پر مسلط اشرافیہ خود سائنسی طرز فکر سے نابلد ہے اور عوامی جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کھلواڑ کرنا ان کے فائدے میں بھی ہے۔ جہاں ببانگ دہل ایسے بیانات دیے جائیں کہ ریپ کی وجہ خواتیں کا لباس ہے تو وہاں کسی سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟ ایک چھ ماہ کے بچے کو کیسا لباس پہننا چاہیے کہ وہ محفوظ رہے؟ ایک معصوم جانور کو کونسا لباس زیب تن کرنا چاہیے اور اسی ملک میں ایک چھ ماہ کے بچے کے ساتھ بھی زیادتی کیس رپورٹ ہوا، اب اس چھ ماہ کے بچے کو کیا پہنانا چاہیے؟
طویل المدتی حل میں ایک یہ ہے کہ کمزور طبقات کو آواز اٹھانے کی اجازت دی جائے۔ ریپسٹ کے حوالے سے ایک نفرت پیدا کی جائے۔ (حیران کن طور پر یہاں ریپسٹ کے حوالے سے معاشرے میں نفرت نہیں پائی جاتی۔ زیادتی کرنے والے اور زیادتی کا شکار ہونے والوں کے لیے جو الفاظ اس معاشرے میں استعمال کے جاتے ہیں وہ لاشعوری سوچ کا اظہاریہ ہیں لیکن اس پلیٹ فارم پر بیان نہیں کیے جا سکتے)۔ خدیجہ کا حالیہ بیان دیکھیے کہ جس نے چاقو کے تئیس زخم کھائے اور جس نے یہ وار کیے وہ معلوم نہیں تئیس ماہ بھی قید میں رہا ہے کہ نہیں۔ خدیجہ نے کہا ہے کہ اصل تکلیف تب ہوتی ہے، جب معاشرے کا یہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ضرور اس لڑکی نے کچھ کیا ہو گا۔
دوسرا طویل المدتی حل نصاب میں تبدیلی ہے۔ نصاب کو جدید سائنسی طرز فکر کی بنیادوں پر استوار کرنا از حد ضروری ہے۔ آپ کو اگر اس ملک میں تبدیلی لانی ہے تو آج کے بچوں کی صورت ایک پوری نسل تیار کرنی ہے تاکہ آج سے بیس یا تیس سال بعد تبدیلی کے اثرات سامنے آ سکیں۔ تبدیلیاں نعروں سے نہیں عقل کی بنیاد پر وضع کی گئی پالیسیوں سےبرآمد ہوتی ہیں۔
فوری طور پر اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مردوں سے عورتوں بچوں اور جانوروں کو خطرہ ہے تو مردوں پر پابندیاں لگائیں نہ کہ مظلوم طبقات کو اندھیری کوٹھڑیوں میں دکھیلتے رہیں۔ ویسے کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ اندھیری کوٹھڑیوں میں بھی محفوظ رہیں گے؟