مرطوب زمین، آلودہ پانی کو شفاف بنانے کا آسان طریقہ
27 اگست 2021پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2025 تک پاکستان میں پینے کا صاف پانی ناپید ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ صاف پانی کی قلت کی وجہ سےپورے ملک میں 90 فیصد کاشتکار سیوریج کے پانی سے فصلوں کو سیراب کرتے ہیں ۔ سیوریج کے پانی میں غذائی اجزاء وافر مقدار میں ہوتے ہیں جس سے کسانوں کو کم کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس پانی میں بہت سی بھاری دھاتیں جیسے آئرن، نکل، کرومیم کے ذرات کے علاوہ انسانی فضلہ اور ہائیڈرو کاربن کے اجزاء بھی شامل ہوتے ہیں جو اگنے وا لے پھلوں اور سبزیوں، خصوصا سبز پتوں والی سبزیوں میں شامل ہو کر گردے، جگر، جوڑوں کا درد ، کینسر، تولیدی نظام میں خرابی اور اعصابی امراض کا سبب بن رہے ہیں ۔
فیصل آباد میں انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے محققین کی ایک ٹیم نے ڈاکٹر محمد افضل کی سربراہی میں اس مسئلے کا حل فلوٹنگ ٹریٹمنٹ ویٹ لینڈز یا تیرتی ہوئی دلدلی زمین کی صورت میں نکالا ہے جس میں ان کی معاونت اسی انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر محمد ارسلان اور ہیلم ہولٹز سینٹر فار انوائرمینٹل ریسرچ جرمنی کی سائنسدان ڈاکٹر جوشن این ملر نے کی ہے۔
فلوٹنگ ٹریٹمنٹ ویٹ لینڈز کیا ہیں ؟
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے فیصل آباد انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے سینیئر پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ فلوٹنگ ویٹ لینڈز مائیکرو فائیٹس یا مائیکرو ایلجی سے بنائے گئے ہیں جو خوردبینی حیات ہیں اور چین (زنجیر) یا گروپس کی صورت میں رہتے ہیں۔ ان فلوٹنگ ویٹ لینڈز کو تیرتی ہوئی چٹائیاں بھی کہا جاتا ہے۔
کسی گدے کی طرح پودوں سے بھری ہوئی ان ویٹ لینڈز کے اندرونی حصوں میں پولی ایتھائلین انسولیشن رول لگائے ہیں جبکہ ان کے کناروں پر المونیم کے فریمز ہیں۔ ان رولز کے اندر سوراخ کر کے نرسل، کنول ، کلر گھاس اور دیگر مقامی پودے لگائے جاتے ہیں جو آلودہ پانی کو صاف کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد افضل بتاتے ہیں کہ فل سکیل پر تیار کردہ ان تیرتی ہوئی ویٹ لینڈز کا ابتدائی ٹیسٹ فیصل آباد کے ایک ایسے جوہڑ میں کیا گیا، جس میں 60 فیصد پانی گھروں کی سیوریج لائنز سےجبکہ بقیہ 40 فیصد قریب کی ٹیکسٹائل ملز اور دیگر صنعتوں سے آرہا تھا جس میں کیمیائی فضلہ بھی شامل تھا۔
فیصل آباد کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا ؟
ڈاکٹر محمد افضل بتاتے ہیں کہ زیادہ آبادی والے شہروں کے قریب بڑھتے ہوئے کارخانوں اور صنعتوں کی وجہ سے آلودہ پانی کے جوہڑ ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ماہرین اس سے نمٹنے کے لیے فلوٹنگ ویٹ لینڈز کا طریقہ استعمال کر رہے ہیں جو سستا اور آسان ہے۔
فیصل آباد پاکستان کے بڑے اور پر ہجوم شہروں میں سے ایک ہے جس کی آبادی 35 لاکھ سے زائد ہے اور تقریبا 512 انڈسٹریل یونٹس اس کے ارد گرد واقع ہیں۔ ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق شہر میں 80 فیصد امراض اور 40 فیصد اموات کی وجہ پینے کے پانی میں مضر صحت اجزاء، بھاری دھاتوں اور ہائیڈرو کاربنز کی زیادتی کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ اس لیے فیصل آباد کے آلودہ جوہڑ اس تجربے کی آئیڈیل جگہ تھے۔
ڈاکٹر افضل بتاتے ہیں کہ فلوٹنگ ویٹ لینڈز تجربے کے پہلے فیز کا آغاز جون 2014 میں کیا گیا جس کا اختتام فروری 2015 میں ہوا۔ اس ابتدائی فیز کے نتا ئج کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ اس کے بعد انٹرمیڈیٹ اور میچور فیزز اگلے تین برسوں میں مکمل ہوئے۔ اس دوران آلودہ پانی میں شامل بائیوکیمیکل اجزاء جیسے تیل، چکنائی، سلفیٹ میں نمایاں کمی سامنے آئی جبکہ پانی میں آکسیجن کی مقدار بھی بتدریج بڑھتی گئی۔
ڈاکٹر افضل کی ٹیم کو بہترین نتائج میچور فیز میں حاصل ہوئے جس میں نوٹ کیا گیا کہ پانی میں شامل بھاری دھاتیں جیسے آئرن، نکل ، کیڈمیم اور کرومیم وغیرہ کے اجزاء میں بتدریج تخفیف ہوئی۔ ان دھاتوں میں نکل نظامِ تولید و اعصاب کو متاثر کرتی ہے جبکہ کیڈمیم پھیپڑوں اور گردے کے امراض کا سبب بنتی ہے۔
ایف ٹی ڈبلیو پینے کے پانی کو کیسے صاف کرتی ہیں ؟
فلوٹنگ ٹریٹمنٹ ویٹ لینڈز یا ایف ٹی ڈبلیو کے ابتدائی تجربات انتہائی آلودہ ایسے جوہڑوں میں کئے گئے جن میں رہائشی علاقوں اور صنعتوں کا گندا پانی آکر شامل ہو رہا تھا ۔ مقامی کسان فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے انہی جوہڑوں سے پانی حاصل کرتے تھے ۔ مگر یہ طریقۂ کار آبپاشی کے پانی کی صفائی کے ساتھ ایسے ذخائر کی صفائی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں سے پانی شہروں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر افضل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پینے کے پانی کی صفائی کے لیے ایف ٹی ڈبلیو کا ایک پلیٹ فارم تیار کر کے ایسے پانی میں تیرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں سے رہائشی علاقوں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ ان پلیٹ فارم کی تیاری میں کنول ، نرسل اور دیگر مقامی پودوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی خوراک آلودہ اجزاء ہوتے ہیں۔ان پودوں کی جڑیں بھاری دھاتوں کے ذرات کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں ۔ اس طرح یہ آلودگی کی تخفیف کر کے آکسیجن پانی میں شامل کرتے رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر افضل کے مطابق آسان الفاظ میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پانی میں کچھ اجزا ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ قدرتی طور پر ختم ہوتے ہیں جنھیں سی او ڈی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ کچھ اجزاء حیاتیاتی عمل سے تلف ہوتے ہیں جنھیں بی او ڈی کہا جاتا ہے۔ پینے کی صاف پانی میں 'سی او ڈی‘ اور 'بی او ڈی‘ دونوں کا تناسب صفر ہوتا ہے۔ لہذا ہم تجرباتی جوہڑوں یا دیگر ذخائر میں اِن کا تناسب مسلسل نوٹ کر کے دیکھتے ہیں کہ کس وقت پانی پینے کے قابل ہوجاتا ہے۔
مزید کہاں کہاں تجربات کیے گئے؟
ڈاکٹرافضل بتاتے ہیں کہ تین برسوں میں فیصل آباد، قصور، چکوال ، اور خانیوال میں اس تکنیک کے تجربات کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے مجموعی طور پر 57,947,400 مکعب میٹر سے زائد آلودہ پانی صا ف کیا جا چکا ہے۔انتہائی زہریلے پانی میں بھی منتخب کردہ پودوں کی افزائش خوب ہوتی رہی اور وقت کے ساتھ پانی کی کوالٹی بہتر ہونے سے ناصرف آبی پرندے ان ذخائر کو لوٹ آئے بلکہ ان کی ٹیم نے کچھ جوہڑوں میں چھوٹی مچھلیوں کی افزائش بھی نوٹ کی ہے۔
تین سال کے دوران پنجاب کے مختلف مقامات پر کیے جانے والے تجربات میں ڈاکٹر افضل اور ان کی ٹیم کو وائلڈ لائف پاکستان اور واسا کا مکمل تعاون حاصل رہا ۔ اس بے انتہا سستی تکنیک کو پاکستان کے دیگر شہروں میں استعمال کر کے صاف پانی کے بحران پر با آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔