مسئلہ کشمیر کا حل: صدر اوباما کی پیشکش
8 نومبر 2010صدر باراک اوباما نے یہ پیشکش بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ساتھ وفد کی سطح پر وزارتی میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کی۔ کشمیر سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اوباما نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کم کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اسلام آباد اور نئی دہلی پر اس مسئلے کا کوئی حل مسلط نہیں کر سکتا لیکن اگر دونوں ملکوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے درمیان مسائل کو حل کرنے میں ’’ہمارا کوئی رول ہو سکتا ہے، تو ہم اسے بخوشی ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات نہ صرف دونوں ہمسایہ ریاستوں کے اپنے بلکہ اس خطے اور امریکہ کے بھی مفاد میں ہیں۔
وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اس سلسلے میں بڑی سادگی سے لیکن ایک سخت پیغام دیتے ہوئے پاکستان سے کہا کہ جہاں تک اسلام آبا د سے تعلقات کی بات ہے تو ”میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایک مضبوط، پرامن اور اعتدال پسند پاکستان بھارت، جنوبی ایشیا اور پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے عہد پر قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ سارے متنازعہ مسائل پر بات چیت ہو۔ اس میں حرف K )کشمیر) بھی شامل ہے۔ ہم کشمیر کے معاملے سے نہیں ڈرتے۔“
وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ نے کہا: ’’یہ میری اپیل ہے کہ آپ بات چیت اور دہشت گردی کی مشین کو ایک ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان دہشت گردی کی آڑ لے کر ایک بار دھمکیوں سے دور ہو جائے تو بھارت خوشی سے تعمیری بات چیت کے لئے تیار ہے تاکہ تمام تنازعات کا حل ممکن ہوسکے۔‘‘
’آؤٹ سورسنگ‘ کے معاملے پر ایک سوال کے جواب میں صدر اوباما نے کہا کہ وہ ان رشتوں کو جس طرح دیکھتے ہیں، اس میں بھارت اور امریکہ کے لئے اچھی صورت حال ہے۔ انہوں نے کہا: ’’امریکہ میں بھی کئی لوگ اس پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ میں اس لئے یہاں آیا ہوں کہ واپس جاکر کہہ سکوں کہ دیکھئے، میں آپ کے لئے بھارت سے ملازمتیں لے کر آیا ہوں۔‘‘ بھارتی وزیر اعظم نے اسی سوال کے جواب میں کہا کہ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو وہ امریکہ سے ملازمتیں چھین نہیں رہا۔ ’’جہاں تک ہماری آؤٹ سورسنگ کی صنعت کا تعلق ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ اس سے امریکی صنعت کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد ملی ہے۔‘‘
باراک اوباما سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے معاملے میں بھارت کی حمایت سے متعلق سوال کو ٹال گئے اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں بھارتی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران کوئی بات کہیں گے۔
اسی دوران امریکہ اور بھارت نے اسٹریٹیجک تعاون کو مستحکم کرنے کے لئے دور رس نتائج کے حامل دو معاہدوں اور مفاہمت کی چار قراردادوں پر دستخط کر دئے، جن میں خلائی شعبہ، ایٹمی توانائی، ماحول دوست توانائی، موسمیاتی پیشن گوئی، زراعت اور دفاع شامل ہیں۔ بھارت کی دیرینہ خواہش کے مطابق نیوکلیائی ٹیکنالوجی کے دوہرے استعمال پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے۔اس سے چار بھارتی کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا۔ دونوں ملکوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کو بھی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے کہا کہ بھارت میں جوہری توانائی اور سکیورٹی سے متعلق چار برس میں ایک نیا مرکز قائم کیا جائے گا، جو ایٹمی مادو ں کی سپلائی کے حوالے سے ایک اہم ادارہ ہوگا۔
امریکی صدر نے کہا کہ بھارت کو دس C-17 کارگو طیارے سپلائی کرنے کا معاہدہ بھی ہو گیا ہے۔ اس سے امریکہ میں 22 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک طیارے کی قیمت 250 ملین ڈالر ہے۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: عصمت جبیں