مسجد الاقصیٰ کا معاملہ، اسرائیل اور اردن میں اتفاق ہو گیا
24 اکتوبر 2015امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ہفتہ چوبیس اکتوبر کو عمان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے مؤقف کو دہرایا کہ مذاکرات کے ذریعے یروشلم میں پائی جانے والی کشیدگی کی کیفیت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ مستقبل میں بھی مسجد الاقصیٰ میں روایت کے مطابق مسلمانوں کو ہی عبادت کی اجازت ہو گی۔ کیری نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین جاری تناؤ کے خاتمے پر زور بھی دیا، ’’تمام تر تشدد اور اشتعال انگیزی روک دینا چاہیے۔‘‘
کیری نے عمان میں اردن کے بادشاہ عبداللہ ثانی اور فلسطینی صدر محمود عباس سے گفتگو میں کہا کہ یروشلم میں قیام امن کے لیے تمام رہنماؤں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یروشلم میں تشدد کے خاتمے کے لیے اسرائیل بھی نئی حکمت عملی مرتب کرنے پر تیار ہو چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دیگر کئی اقدامات کے علاوہ اب یروشلم بالخصوص مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں، جن کی مدد سے مسلسل نگرانی کی جائے گی۔
جان کیری نے جمعرات کے دن برلن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے تناظر میں کیری نے فلسطینی اور اردن کے رہنماؤں کو یقین دلایا کہ اسرائیل اس نئی کشیدگی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افواہوں پر کان دھرنے سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، جو بعدازاں تشدد میں بدل جاتی ہیں۔ کیری کے بقول مسجد الاقصیٰ کی نگرانی کے حوالے سے اردن کے کردار پر اسرائیل کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
کیری نے واضح کیا کہ اسرائیل مسجد الاقصیٰ کو تقسیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام اور اردن کی انتظامیہ مسجد الاقصیٰ کی نگرانی کے حوالے سے اپنی رابطہ کاری میں مزید بہتری پیدا کرنے پر بھی تیار ہو چکے ہیں۔ کیری کا کہنا تھا کہ خفیہ کمیروں کی مدد سے مسجد الاقصیٰ کے احاطے کی بہتر طریقے سے نگرانی ہو سکے گی اور معلوم ہو سکے گا کہ وہاں تشدد کا ذمہ دار کون ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی دونون ہی ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ یروشلم کے اس اہم مقام پر تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ اس مقام سے شروع والے فلسطینیوں کے مظاہرے مغربی اردن اور غزہ پٹی تک پھیل گئے تھے۔ سکیورٹی مبصرین نے اس دوران ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین تشدد کا یہ تازہ سلسلہ ایک نئے بحران کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔
حالیہ عرصے میں رونما ہونے والت پرتشدد مظاہروں اور واقعات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اس معاملے کے حل کے کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کی طرف سے چاقوؤں کے مختلف حملوں کے نتیجے میں دس اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی وجہ سے بھی انچاس فلسطینی لقمہ اجل بنے ہیں۔