مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کی آمد
21 اگست 2009رمضان مسلمانوں کے لئے ايک بہت ہی خاص مہينہ ہوتا ہے۔ دنيا بھر ميں ايک ارب سے زائد مسلمان پانچ وقت نماز سے قبل اذان کی آواز سنتے ہيں۔تاہم ، ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ اس کا تاثر کچھ اور ہی گہرا ہو جاتا ہے۔ چاہے مکہ ہو يا مدينہ، ہيمبرگ ہو يا نيو يارک، رمضان کا مہينہ مسلمانوں سے بہت سے تقاضے کرتا ہے۔
خاص طور پر، شمال کے سرد ملکوں ميں مقيم مسلمانوں کو بہت قوی جذبہء عبادت اور مذہبيت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے کيونکہ ان ملکوں ميں موسم گرما ميں دن بہت لمبے اور راتيں بہت مختصر ہوتی ہيں۔ مثلاً جرمنی ميں رمضان کے پہلے دن انتہائے سحر تقريباً چار بج کر چون منٹ اور افطار أٹھ بج کر پچاس منٹ پر ہے۔اس طرح يہاں پہلا روزہ تقريباً سولہ گھنٹے کا ہوگا۔
رمضان اوچار شمالی جرمنی ميں ایک امام ہيں۔ انہوں نے بتايا کہ اگر بھولے ميں کوئی روزے کے دوران کچھ کھا پی لے تو اسے ايک الہی تحفہ سمجھا جاتا ہے جس کا کوئی مؤاخذہ نہيں ہوتا اور روزے دار اپنا روزہ جاری رکھ سکتا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنا،اسلام کے پانچ ستونوں ميں سے ايک ہے۔ روزے کی اہميت کے بارے ميں قرآن ميں ہے ’ايمان والوں، تم پر روزہ فرض کيا گيا ہےجس کے دنوں کی ايک مخصوص تعداد ہے‘
چاند کے حساب سے يہ دن انتيس يا تيس ہوسکتے ہيں۔ روزے کا ايک پہلو کھانے پينے اور لذت بخش چيزوں سے پرہيز ہے جس کا مقصدخود اپنی اندرونی تطہير اور روحانيت پر توجہ ہے۔ روزے کا دوسرا پہلو روزمرہ کی اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔
مسلمان رمضان ميں اجنبيوں کو بھی مساجد يا ريستوران ميں کھانے پر مدعو کرتے ہيں۔ يہ وہ مہينہ ہے جس ميں دوسروں کے ساتھ زيادہ ہمدردی اور يکجہتی کا اظہار کيا جاتا ہے۔ دوسروں کی مشکلات پر توجہ دی جاتی ہے اور گھرانوں ميں پائی جانے والی رنجشيں بھی دور کی جاتی ہيں۔ اس کے لئےبھی يہ بابرکت مہينہ ايک نادر موقع ہوتا ہے۔
رمضان ميں قرأن کی تلاوت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے کيونکہ سن 610 ہجری ميں قرآن اسی ماہ حضرت محمد پر اتارا گيا تھا۔ مل جل کر صبح سويرے طلوع آفتاب سے پہلے سحری، سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی افطار اور اجتماعی عبادات، يہ ہے وہ روح پرور فضاء جو آنے والے ہفتوں ميں پوری اسلامی دنيا ميں چھائی رہے گی۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عدنان اسحاق