مسلم اماموں کا ’انسدادِ دہشت گردی‘ مارچ برلن میں
10 جولائی 2017آئما کا یہ گروپ فرانس، جرمنی اور بیلجیم کا دورہ کر رہا ہے۔ یہ امام ان مقامات پر جا رہے ہیں، جو مسلم شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنائے گئے اور برلن میں ایسے ہی ایک حملے کا نشانہ بننے والی کرسمس مارکیٹ کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
برلن کے برائٹ شائیڈ پلاٹس نامی چوک پر جہاں مشہور زمانہ کائزر ہیلم چرچ بھی قائم ہے، اس علامتی دورے کا مقصد گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے 12 افراد کو یاد کرنا تھا۔ برلن کا یہ علاقہ ایک طرف تو چرچ کی تباہ حال عمارت کو مستقل اسی حالت میں رکھ کر دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کی یاد دلاتا ہے، مگر گزشتہ برس کے حملے نے اس علاقے کو ایک اور بھیانک نشانی دے دی ہے۔
ان آئما میں زیادہ تر کا تعلق فرانس سے ہے اور انہوں نے برائیٹ شائیڈ پلاٹس پر دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یادگار پر پھول نچھاور کیے۔ اس کے بعد یہاں فرانسیسی، عربی، جرمن اور عبرانی زبانوں میں دعا بھی کی گئی۔ اس موقع پر اجتماع سے برلن کی مسلم برادری کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر سیٹیزن پولیٹیکل ایکٹیوزم نامی تنظیم کے برلن کے لیے سیکرٹری سواسن چیبلی نے کہا، ’’یہ درندے جو خود کو اڑا کر دیگر انسانوں کو ہلاک کرتے ہیں، ان کا تعلق کسی مذہب سے نہیں۔ میں بھی مسلمان ہوں اور یہ ایک بھرپور اور مضبوط پیغام ہپے کہ مسلمان امن اور بھائی چارے سے رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایک بس کے ذریعے مختلف مقامات پر جانے والے ان آئما کی تعداد ساٹھ ہے، جس میں برلن کے امام طحہٰ صابر بھی شامل ہیں۔ صابر کا کہنا ہے، ’’خدا ہم تجھ سے رحم اور امن مانگتے ہیں، ان تمام معصوم انسانوں کے لیے جو انسانیت اور ضمیر کھو دینے والوں کے ہاتھوں ناحق مارے گئے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں مسلم برادری کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے آواز اٹھانے سے قاصر ہے اور دہشت گردی کے کسی واقعے پر کھل کر مذمت کرتی ہوئی بھی دکھائی نہیں دیتی۔
اس اجتماع کے بعد ایک پریس کانفرنس میں فرانس کے مسلم اماموں کی تنظیم کے نائب صدر حکین دروش نے کہا کہ بعض آئمین کو ایسے اجتماعات میں شرکت سے کئی طرح کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ بتایا، ’’مجھے بھی مسلم کمیونٹی کے اندر سے کئی بار میرے اعتدال پسند نظریات کی وجہ سے مجھے اور میری اہل خانہ کو دھمکیاں موصول ہوئی۔‘‘