مسلم ملکوں کی تنظیم کی سمٹ کے لیے حکام کا اجلاس
10 اپریل 2016تنظیم برائے اسلامی تعاون کی استنبول میں شروع ہونے والی دو روزہ سمٹ اگلے ہفتے کے دن جمعرات اور جمعہ کے روز ہو گی۔ یہ سمٹ ایسے وقت میں شروع ہو رہی ہے جب مسلم دنیا کے کئی ملک افراتفری اور اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ اعلیٰ حکام بنیادی ایجنڈے کو ترتیب دینے کے سلسلے میں فلسطین سمیت کئی ایسے دوسرے مسلم ملکوں میں پائی جانے والی دہشت گردی پر فوکس کریں گے۔ چون رکنی تنظیم برائے اسلامی تعاون کے تیرہویں سالانہ سربراہ اجلاس سے قبل وزرائے خارجہ کے اجلاس میں منگل کے روز حتمی ایجنڈے کی منظوری دی جائے گی۔ اِس کے بعد سربراہ اجلاس میں شریک رہنما منظور شدہ ایجنڈے اور اعلامیے کی حتمی توثیق کریں گے۔
استنبول میں او آئی سی اجلاس کے موقع پر انتہائی سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ کانفرنس کے مقام کو پولیس اور دوسرے سکیورٹی اہلکاروں نے ابھی سے اپنے حصار میں لے لیا ہے اور ہر جگہ کی سکیورٹی کلیرنس کا عمل شروع کر دیا ہے۔ دو روزہ سربراہ کانفرنس کی میزبانی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کر رہے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق کم از کم تیس ملکوں کے لیڈر اِس سربراہ اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں اور ان اہم مہمانوں کی فہرست میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلیمان بھی شامل ہیں۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی (OIC) کے مطابق سربراہ اجلاس میں فلسطینی تنازعے پر خصوصی فوکس کیا جائے گا۔ اِسی مناسبت سے ایک قرارداد کی منظوری بھی دے جائے گی اور اُس میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا جائے گا کہ فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں کو دوبارہ شروع کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ اِس کا بھی قوی امکان ہے کہ سربراہ اجلاس کے شرکاء مغربی دنیا میں پیدا ہونے والی ’اسلامو فوبیا‘ کی لہر پر بھی کسی مشترکہ مؤقف پر اتفاق کرتے ہوئے کوئی بیان جاری کر یں۔ مبصرین کے مطابق مسلم ملکوں کی تنظیم کی جانب سے منظور کی جانے والی قراردادوں کو حتمی کامیابی بہت ہی کم حاصل ہوئی ہے اور اس کی وجہ رکن ملکوں کے اختلافات ہیں اور ایسے کئی ملکوں میں مصر نمایاں ہے کیونکہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ’زیرو برداشت‘ کا رویہ برسوں سے اپنائے ہوئے ہے۔
ذرائع کے مطابق مسلم ملکوں کی تنظیم کے اجلاس میں غیرمسلم ملکوں میں رہنے والی مسلم کمیونیٹیز کی مجموعی حالاتِ زار کا بھی جائزہ لیتے ہوئے پیدا شدہ منفی رویوں پر مذمتی بیان بھی جاری کیا جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ مسلم دنیا میں شام کو خانہ جنگی کا سامنا ہے تو ایسے ہی حالات یمن میں ہیں جبکہ عراق کو پے در پے دہشت گردانہ واقعات کا سامنا ہے۔ ترکی کے جنوبی حصے میں کرد علیحدگی پسندوں کو حکومت کے عسکری آپریشن کا سامنا ہے تو افغانستان میں طالبان نے کابل حکومت کو پریشان کر رکھا ہے جبکہ پاکستانی طالبان کے تعاقب میں ملکی فوج ہے۔