مسیحیت میں اصلاحات کے پانچ سو سال، جرمنی میں عالمی اجتماع
24 مئی 2017جرمن زبان میں ’کِرشن ٹاگ‘ (Kirchentag) کہلانے والا یہ اجتماع دراصل جرمن پروٹسٹنٹ چرچ کی اسمبلی ہے، جو 1949ء سے ہر دو سال بعد منعقد کی جاتی ہے اور جس میں، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، پورے جرمنی سے مسیحیت کے پروٹسٹنٹ مسلک کے پیروکار اور ان کے مذہبی رہنما شامل ہوتے ہیں۔
اس سال لیکن مسیحیت میں مذہبی اصلاحات یا ’ریفارمیشن‘ کے عمل کے بھی 500 سال پورے ہو رہے ہیں، اس لیے اس مرتبہ اس اجتماع میں دنیا بھر سے سرکردہ پروٹسٹنٹ شخصیات بھی جمع ہو رہی ہیں۔ مجموعی طور پر برلن میں اہتمام کردہ اس کلیسائی کنوینشن یا اسمبلی میں اس مرتبہ قریب ایک لاکھ چالیس ہزار شخصیات کی شرکت متوقع ہے، جن میں سے ایک ابہت اہم نام سابق امریکی صدر باراک اوباما کا بھی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ باراک اوباما اپنی صدارتی ذمے داریوں سے فراغت کے بعد جرمنی کا دورہ کر رہیں ہیں۔
اس کنوینشن کے دوران برلن کے مشہور زمانہ برانڈن برگ گیٹ کے عین سامنے کل جمعرات پچیس مئی کو جب باراک اوباما ایک مسیحی پادری کی بیٹی اور موجودہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی موجودگی میں اس اجتماع کے شرکاء سے خطاب کریں گے، تو ان کا واضح پیغام ہو گا: ’’جمہوریت کو خدا پر یقین کی ضرورت ہے۔‘‘
اس مرتبہ ہر دو سال بعد منعقد ہونے والے اس کلیسائی اجتماع کے موقع پر قریب ڈھائی ہزار مختلف نشستوں، تقریبات اور مباحث کا اہتمام کیا گیا ہے، جن سے خطاب یا جن میں خصوصی شرکت کرنے والے بہت سرکردہ مہمانوں کی تعداد بھی 30 ہزار کے قریب ہو گی۔
یہ اجتماع مسیحیت میں ’ریفارمیشن‘ کی پانچ صدیاں پوری ہونے کے حوالے سے صرف ایک مسیحی اجتماع ہی نہیں ہو گا بلکہ اس میں دیگر الہامی اور غیر الہامی مذاہب کی بہت سی سرکردہ شخصیات بھی شرکت کریں گے۔ ان شرکاء میں جنوی افریقہ میں مسیحیوں کے کیتھولک مسلک کے انتہائی اہم نمائندہ اور کیپ ٹاؤن کے آرچ بشپ تھابو میکگوبا، قاہرہ میں مسلمانوں کی جامعہ الازہر کی مسجد کے امام اعظم شیخ احمد الطیب، اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب شٹیفان ڈے مِستورا اور اسرائیلی مصنف آموس اوز بھی شامل ہیں۔
مظلوموں کی تکالیف نظر انداز نہ کی جائیں، پوپ کا ایسٹر پیغام
خدا کے وجود پر شبے سے پاپائے روم بھی مبرہ نہیں
مہاجرین خطرہ نہیں، ترقی کے لیے چیلنج ہیں، پوپ فرانسس
دوسری عالمی جنگ کے بعد 1949ء میں ہینوور شہر میں ’جرمن کِرشن ٹاگ‘ کی بنیاد ایک ’ملک گیر پروٹسٹنٹ ویک‘ کے طور پر مشرقی پرُوشیا کے سیاستدان رائن ہولڈ فان تھاڈن نے رکھی تھی اور تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس سال اس اجتماع میں کئی ایسی سیاسی شخصیات بھی شرکت کریں گی، جنہیں سیاسی حوالے سے متعدد حلقے اسمبلی کے شرکاء کے طور پر کافی حد تک متنازعہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ان میں موجودہ جرمن حکومت میں شامل متعدد پروٹسٹنٹ سیاستدان بھی شامل ہیں۔
جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے اس اسمبلی میں اس بارے میں بحث کریں گے کہ یورپ کو کون سی چیز متحد رکھے ہوئے ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے انگیلا میرکل کے حریف امیدوار مارٹن شُلس اس بارے میں بات کریں گے کہ قابل اعتماد ہونا کس کو کہتے ہیں جبکہ جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر تو اس اجتماع کے دوران سات مختلف نشستوں میں حصہ لیں گے، جن میں سے ایک میں وہ جامعہ الازہر کے امام اعظم شیخ احمد الطیب کے ساتھ شرکت کریں گے۔
جرمن نیوز ایجنسی ای پی ڈی کے مطابق اس کلیسائی اجتماع میں جن دو اہم ترین موضوعات پر سب سے زیادہ بحث ہو گی، وہ بین الاقوامی تنازعات اور ان کے حل اور یورپ کا مستقبل ہوں گے۔