مشرقِ وسطیٰ کے لئے امن کوششیں تیز تر
27 جولائی 2009امریکہ کی جانب سے مشرقِ وسطٰی میں قیامِ امن کی کوششوں میں واضح طور پر تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
مشرقِ وسطٰی کے لیے خصوصی امریکی مندوب جارج مچل نے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ اتوار کو ہوئی اپنی ملاقات کو مثبت قرار دیا ہے۔ جون کے بعد یہ جارج مچل کا شام کا دوسرا دورہ ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کے حل کے لیے عرب ممالک اور اسرائیل دونوں فریقین کو کردار ادا کرنا ہوگا اور اس ضمن میں شام کا تعاون ضروری ہے۔
امریکہ میں باراک اوباما کے صدر بننے کے بعد مشرقِ وسطٰی میں قیامِ امن اور دو ریاستی حل کو ممکن بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آئندہ چند روز اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل قرار دیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جارج مچل شامی قیادت سے ملاقات کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس مشرق وسطٰی کے دورے پر ہیں جہاں وہ اسرائیل اوراردن کا دورہ کریں گے۔ اسی دوران جارج مچل اور امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز ایک وفد کے ساتھ رابرٹ گیٹس کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔
تاہم امریکی صدر باراک اوباما کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر پائے جا رہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اسرائیل کو فلسطینی قیادت کے سات مذاکرات کرنے پر زور دینے کے علاوہ غربِ اردن میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر مکمل طور پر روکنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔ امریکی مطالبے کے باوجود اسرائیل کی جانب سے وہاں تعمیراتی کام جاری رکھا جا رہا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات غربِ اردن میں نئی آبادیوں کو روکے جانے کے بغیر ناممکن ہیں۔
اسی مناسبت سے اسرائیل کے نو منتخب وزیرِ اعظم بین یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط ہیں تاہم ان کے درمیان چند اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔
اعلیٰ امریکی عہدیداروں کی ایک ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کے علاوہ امریکی عہدیدار اس دورے میں ایران کے مسئلے پر بھی بات چیت کریں گے۔ حال ہی میں ایرانی اور اسرائیلی قیادت نے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی بات کی ہے۔ ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام بھی ان ملاقاتوں کا ایک اہم موضوع رہے گا۔ اسی دوران یورپی یونین بھی امریکی صدر اوباما کی جانب سے مشرقِ وسطٰی پالیسی کی تائید کرتے ہوئے اس کو ممکن بنانے کے لیے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔