مشرقی تیموراور پرتگال کے روابط
16 جنوری 2009ایسٹ ٹیمور یا مشرقی تیمور چار صدیوی تک پرتگال کی ایک کالونی رہا۔ تاہم اس علاقے کی تاریخی حیثیت اور مذہبی ورثہ ہمیشہ ہی طاقت ور رہا ہے اسی لئے سن 1975 میں انڈونیشیائی فورسزز کے اس علاقے پر قبضے کے بعد بھی اس علاقے نے اپنا ایک تشخص قائم رکھا۔ سن 2002 میں مشرقی تیمور نے مکمل آزادی حاصل کی۔ تاہم اس کے بعد بھی پرتگال سے اس ملک کے تعلقات ہمیشہ ہی اہم رہے۔ اسی ہفتے مشرقی تیمور کے وزیر خارجہ نے لزبن کا دورہ کیا جہاں مشرقی تیمور کے سفارت خانے کا افتتاح کیا گیا۔
سن 1990 میں پرتگالی روک سٹار Luis Represas کا مشہور گانا "Ai Timor" منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے مشرقی تیمور میں انڈونیشائی قبضے کی ابتر صورتحال کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا۔ اس گانے کی بدولت لوگوں کوشعور ملا کہ وہاں کتنی بری صورتحال ہےاور نتیجتا پرتگالی حکومت نے عالمی سطح پر کوشش کی کہ مشرقی تیمور کو اپنے تئیں فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہئے۔
آزادی سے قبل مئی سن 2002 میں ہی مشرقی تیمور نے اس بات کا اشارہ دیا کہ مشرقی تیمور میں پرتگالی زبان بھی ایک سرکاری زبان ہوگی۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اس علاقے میں صرف پانچ فیصد آبادی پرتگالی زبان بولتی تھی جبکہ چالیس فیصد سےزائد لوگ انڈونیشائی زبان بولتے تھے۔
پندرہ جنوری کومشرقی تیمور کے وزیر خارجہ Zacarias da Costa نے لزبن میں نئے سفارت خانے کے افتتاح کے موقع پر، CPLP نامی پرتگالی بولنے والے ممالک کی ایک کمیونٹی کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے نہ صرف اس کمیونٹی کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا بلکہ کہا کہ مشرقی تیمور میں بھی اس کمیونٹی کا دفتر ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ سی پی ایل پی ممالک کے لئے سیاسی اشارے کے طور پراور اس تنظیم کے ساتھ ہمارے سنجیدہ طرز کے اظہار کے لئے یہ بہت اہم ہے۔ بالکل مشرقی تیمور خود کو بڑی حد تک Lusophone خاندان کا حصہ مانتے ہیں اور ہم اس میں یقینی طور پر بھرپور شرکت کریں گے۔
da Costa مشرقی تیمور اور پرتگال کے مابین تعلقات مظبوط کرنے کی ایک مثال ہیں ۔ بچپن کے دنوں میں انہوں نے خود بھی لزبن میں کافی وقت گزارا ۔ دوسری طرف پرتگال خود بھی مشرقی تیمور سے خصوصی تعلقات رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔ پرتگالی اسٹیٹ سیکرٹری کہتے ہیں کہ مشرقی تیمور کے لئے ان حمایت ایک بنیادی حکمت عملی کا حصہ ہے اوریقینا پرتگال اس ریاست کی مدد کر سکتا ہے۔ لیکن اس میں تیمور کی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل رہے گی۔
اسی ہفتے پرتگالی زبان بولنے والی کمیونٹی پر کتاب شائع کرنے والے ،لزبن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر Jose Filipe Pinto سمجھتے ہیں کہ مشرقی تیمور کی طرف سے پرتگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینا، اور ان ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا جہاں یہ زبان بولی جاتی ہے دراصل ان کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا ماضی میں تیمور کے پڑوسی ممالک کے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہیں تھے۔ اور آزاد ریاست کے طور پر تیمور کے اس بیان کی تصدیق میں زبان کا کردار بہت اہم ہے۔
واضح رہے کہ پرتگالی زبان کو فروغ دینی والی اس کمیونٹی کی کوششوں سے پرتگالی زبان بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔