مشرقی غوطہ میں دو ہفتوں میں چھ سو شامی ہلاک، دو ہزار زخمی
4 مارچ 2018سوئٹزرلینڈ میں جنیوا سے اتوار چار مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے آج کہا گیا کہ اس عالمی ادارے نے قریب ایک ہفتہ قبل مشرقی غوطہ میں فائر بندی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے وہاں صورت حال بہتر ہونے کے بجائے خونریزی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
’مشرقی غوطہ میں امکاناً جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہے‘
مشرقی غوطہ کے شہری علاقہ چھوڑنے سے انکاری
مشرقی غوطہ میں فائر بندی کے مطالبے کے باوجود فضائی حملے اور جھڑپیں
عالمی ادارے کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی کاموں کے علاقائی رابطہ کار اور شام کے لیے ذمے دار اہلکار پانوس مُومٹزس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مشرقی غوطہ میں جس طرح عام شامی شہریوں کو ’اجتماعی سزا‘ دی جا رہی ہے، وہ ’قطعی ناقابل قبول‘ ہے۔
مشرقی غوطہ کا علاقہ گزشتہ چھ برسوں سے شامی باغیوں کے قبضے میں ہے اور دمشق حکومت اپنی فوج کے ذریعے شروع سے ہی اس کوشش میں رہی ہے کہ کسی طرح اس علاقے کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وہاں شامی فضائیہ، شام کے زمینی دستوں، اسد حکومت کے حامی ملیشیا گروپوں اور صدر بشارالاسد کے سیاسی اور عسکری اتحادی روس کی مدد سے کیے جانے والے حملوں میں بہت تیزی آ چکی ہے۔
شام میں مشرقی غوطہ: ’زمین پر دوزخ‘
پانوس مُومٹزس کے مطابق 18 فروری سے مشرقی غوطہ میں کیے جانے والے فضائی حملوں اور زمینی گولہ باری سے اب تک 600 کے قریب افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مشرقی غوطہ سے شامی باغیوں کی طرف سے ملکی دارالحکومت دمشق پر فائر کیے جانے والے مارٹر گولوں سے بھی اب تک درجنوں عام شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے شام کے لیے اعلیٰ امدادی اہلکار مُومٹزس نے کہا، ’’بجائے اس کے کہ ہمیں اس خونریزی میں کوئی وقفہ دیکھنے کو ملتا، ہمیں زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں نظر آ رہی ہیں اور ایسی رپورٹیں بھی کہ عام لوگوں کو بھوک اور ہسپتالوں تک کو بمباری کا سامنا ہے۔‘‘
اسی دوران شام کے سرکاری میڈیا نے اتوار کے روز بتایا کہ اسد حکومت کے دستوں کو باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ کی طرف نئی پیش قدمی کا موقع ملا ہے اور کئی محاذوں پر سرکاری دستے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
شام میں مشرقی غوطہ پر مسلسل حملے: ’پانچ سو شہری مارے گئے‘
روس اور ایران شام میں تشدد ختم کرائیں، جرمن چانسلر
دوسری طرف نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے مشرقی غوطہ کے کئی شہریوں کے ساتھ بات چیت کے بعد ان کو درپیش حالات کی دل ہلا دینے والی تفصیلات میں لکھا ہے کہ اس شامی شہر کے باسی گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اپنے 600 سے زائد پیاروں کو ایسے حالات میں ’خدا حافظ‘ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ یہ شہری فضائی اور زمینی حملوں کے دوران اپنے جانیں بچانے کے لیے جو پناہ گاہیں استعمال کرتے ہیں، وہی ان کے ’’مقبرے‘‘ بنتی جا رہی ہیں، ’’جہاں لوگ پناہ لیتے تھے، وہاں اب ملبے کے نیچے سے لاشیں ملتی ہیں۔‘‘