مشرقی یروشلم میں نئی بستیوں کا قیام، امریکا کے لیے تشویش کا باعث
13 نومبر 2014اسرائیل کی جانب سے بدھ کے روز مشرقی یروشلم میں دو سو نئے مکانات کی تعمیر کی پارلیمانی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس اعلان سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مقدس مقامات کے موضوع پر پیدا ہونے والی شدید کشیدگی کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ اعلان امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے اردن پہنچنے سے چند گھنٹے قبل کیا گیا۔ کیری اپنے اس دورے میں فریقین کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ امریکی محکمہء خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اسرائیلی اعلان پر ’سخت تشویش‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔ جان کیری اردن کے دارالحکومت عمان میں شاہ عبداللہ دوم اور محمود عباس سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان یروشلم میں واقع مقدس مقامات پر کنٹرول کے حوالے سے سخت تناؤ جاری ہے جب کہ پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکی ثالثی میں فریقین کے درمیان امن مذاکرات ناکام جب کہ غزہ پر اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کی ہلاکت کی وجہ سے فلسطینیوں اور اسرائیلی کے درمیان بداعتمادی بہت بڑھ چکی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ پارلیمانی منظوری کے باوجود یروشلم میں راموت کے علاقے میں ان نئے مکانات کی تعمیر میں کئی برس کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس شہر کے میئر کے دفتر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ شہری انتظامیہ نے عرب علاقے میں بھی 174 مکانات کی تعیمر کا فیصلہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق راموت کے علاقے میں 70 ہزار اسرائیلی آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں بھی یہ علاقہ اسرائیل ہی کا حصہ رہے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ سن 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد میں اسے اسرائیل کا حصہ بنا لیا گیا تھا، تاہم بین الاقوامی سطح پر اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور اسے مقبوضہ علاقہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں فلسطینی اس علاقے کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بھی قرار دیتے ہیں۔