مشرق وسطیٰ میں اے آئی کا استعمال کتنا بڑا خطرہ؟
27 اگست 2023اس سے قبل اماراتی قیادت پر تنقید کرنے کی وجہ سے الرومیتھی کو سن 2013 میں ایک مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، جس کے بعد انہیں 15 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے اس عمل کی مذمت بھی کی گئی تھی۔
امارات ایڈووکیسی سینٹر کے ڈائیریکٹر الشمسی کا کہنا ہے کہ اماراتی حکام نے الرومیتھی کی آنکھوں کی پتلیوں کو اسکین کرنے کے بعد انہیں گرفتار کیا مگر یہ معلوم نہیں کہ اردن کو ان کا ڈیٹا کیسے ملا؟ یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ تمام معلومات امارات کی جانب سے فراہم کی گئی ہوں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم وکلا کے مطابق الرومیتھی کو اردن سے امارات بھیجنا اور قید میں رکھنا غیر قانونی عمل ہے۔
نجی معلومات کا استعمال کہاں کہاں ممکن؟
امریکی انسانی حقوق کے ادارے فریڈم ہاؤس نے کہا ہے کہ الرومیتھی کا کیس ظاہر کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں نجی معلومات کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں جابر حکومتیں جدید ٹیکنالوجی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
بھارت کا ہوائی اڈوں پر چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا منصوبہ
بائیومیٹرک معلومات کے ذریعے انسان کی شناخت آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ انیسویں صدی میں ملزم تک رسائی کے لیے پولیس فنگر پرنٹس اور کرمنل تحقیقات کے لیے ڈی این اے کی مدد حاصل کرتی تھی۔
بہت سے لوگ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ بائیومیٹرک تصدیق کیا ہے اور اس میں فنگر پرنٹس اور آنکھوں کی پتلیوں سے شناخت کی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال اسمارٹ فون ہیں۔
آرٹیفشل انٹیلی جنس اور انسانوں کی شناخت
انسانی حقوق کے ماہرین آرٹیفشل انٹیلی جنس اور نئی ٹیکنالوجیز سے متعلق پریشان نظر آتے ہیں۔ یورپین ڈیجیٹل رائٹس نیٹ روک کی پالیسی ایڈوائیزر الا جکوبوسکا کہتی ہیں کہ نئے سافٹ ویئرز کے ذریعے انسانوں کی شناخت کا عمل گزشتہ پانچ سال میں کافی حد تک بڑھا ہے۔ انسانوں کی شناخت کے لیے استعمال کیے جانے والے سافٹ ویئرز تیز رفتار اور سستے ہیں مگر یہ انسانوں کی نگرانی کرنے کے لیے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ کمزور ڈیٹا سکیورٹی قوانین اور تصدیق کے لیے بائیومیٹرک ٹیکنالوجی کا استعمال خطرناک ہے۔
کیا جدید سکیورٹی سسٹمز واقعی خطرہ ہیں؟
کچھ ممالک بائیومیٹرک تصدیق سے متعلق خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائیریکٹر محمد سلیمان کہتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں میں بائیومیٹرک تصدیق کا رجحان کافی حد تک پایا جاتا ہے اور تقریبا ہر خلیجی ملک ہوائی اڈون، سرحد اور امیگریشن کے لئے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتا ہے۔
یورپ آنے والے غیر ملکیوں کے لیے نیا ’انٹری ایگزٹ سسٹم‘ منظور
دبئی ایئرپورٹ پر ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا، جس نے خواتین کا برقعہ پہن رکھا تھا اور چہرہ بھی نقاب سے چھپایا ہوا تھا۔ اس شخص کی شناخت چلنے کے انداز اور جسامت کی بنا پر کی گئی۔ دبئی میں 122 اسمارٹ دروازے داخلی اور خارجی ٹرمینلز پر فرسٹ کلاس مسافروں کے لیے لگائے گئے ہیں تاکہ مسافروں کی شناخت ہو سکے۔
کچھ خلیجی ممالک جیسے قطر اور سعودی عرب وغیرہ شہریت کے اندراج کے لیے شہریوں کی بائیومیٹرک معلومات لیتے ہیں۔ عراق اور یمن کی حکومتیں یہ کام ووٹ کے اندراج کے لیے پہلے ہی کر چکی ہیں۔
جکوبوسکا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت، جو تمام شہریوں کا ڈیٹا اکھٹا کرتی ہے، وہ بہت آرام سے سی سی ٹی وی کے ذریعے اس بات کا پتا لگا سکتی ہے کہ کون کہاں ہے اور کس سے ملاقات کر رہا ہے؟ یہ نا صرف انسانوں کی زندگی پر اثر انداز ہو گا بلکہ یہ بڑی حد تک خطرناک بھی ہے۔
کیا ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکنا ممکن ہے؟
یورپی پارلیمان میں بھی یہ بات زیر بحث ہے کہ اے آئی سے متعلق پہلا قانون کیا ہونا چاییے، بائیومیٹرک معلومات کو استعمال کرنے سے متعلق قواعد کیا ہونے چاہئیں؟ ڈیٹا ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی پارلیمان نے ٹیکنالوجی سے متعلق واضح کہا ہے کہ ٹیکنالوجی سے متعلق، جو قانون سازی کی جا رہی ہے، وہ دوسرے ممالک کے لئے ہو گی۔
جکوبوسکا کا کہنا ہے کہ لوگوں کا بائیومیٹرک ڈیٹا لینا کسی حد تک کئی معاملات میں فائدہ مند تو نظر آتا ہے مگر یہ ڈیٹا انتہائی حساس نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ کوئی پاسورڈ نہیں، جو استعمال کے بعد تبدیل کیا جا سکے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈیٹا پرائیویسی سے متعلق بنائے جانے والے قوانین کار آمد ثابت نہیں ہوں گے۔
کیتھرین شائر/ ا ش/ ا ا