مشہور رقاصہ اور ’ڈبل ایجنٹ‘ ماتا ہری کون تھیں؟
مشہور ڈچ رقاصہ اور ’جاسوسہ‘ مارگریٹا سیلے کی سزائے موت پر عملدرآمد کو سو برس بیت گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اس فنکارہ کو فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
’آنکھیں بند نہیں کرنا‘
اپنے نیم عریاں رقص کے باعث مشہور ہونے والی فنکارہ ماتا ہری کو اکتالیس برس کی عمر میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اپنے فن اور فیشن کے ذوق کے باعث وہ پاپولر کلچر میں آج بھی زندہ ہیں۔ سو برس قبل پندرہ اکتوبر سن 1917 کو جب انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا گیا تھا تو انہوں نے شوٹنگ سے قبل اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا تھا۔
بزنس مین کی بیٹی
مارگریٹا سیلے ایک ڈچ بزنس مین کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں اپنی عمر سے کافی بڑے ایک فوجی افسر سے شادی کی تھی لیکن جلد انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتیں۔ تب سن 1903 میں وہ رشتہ ازداوج کو توڑتے ہوئے (انڈونیشیا سے) فرانس چلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف ستائیس برس تھی۔
خالی ہاتھ فرانس میں
جب خوبرو مارگریٹا پیرس پہنچیں تو ان کے ہاتھ بالکل خالی تھے۔ تب انہوں نے ایک کلب میں نیم برہنہ رقص کرنا شروع کیا اور اپنا نام بدل کر ماتا ہری رکھ لیا۔ جلد ہی وہ مشہور ہو گئیں اور یورپ بھر میں ان کا چرچا ہو گیا۔ انیس سو دس کی دہائی میں وہ بطور فنکارہ ایک معروف شخصیت کا روپ دھار چکی تھیں۔
’میڈونا کی طرح مشہور‘
واشنگٹن ٹائمز نے سن دو ہزار سات میں لکھا تھا، ’’اپنے وقت میں وہ میڈونا کی طرح مشہور و معروف تھیں۔‘‘ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے انہوں نے اس وقت کے بڑے بڑے فوجی افسران اور سفارتکاروں سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ تب انہیں مال و زر کی کوئی فکر نہیں رہی تھی۔
’دلربا معشوق‘
پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ میں جب ماتا ہری کو جرمن افواج کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرانس میں سزائے موت سنائی گئی تھی تو یورپ بھر میں مقتدر حلقے انہیں جانتے تھے۔ کہا جتا ہے کہ ہالینڈ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں وہ دلربا کے نام سے مشہور تھیں۔
جسم فروشی پر مجبور
سن انیس سو چودہ میں البتہ ان کی شہرت کچھ مانند پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں وہ پیرس میں ایک کال گرل کے طور پر کام کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کا کام تب وزراء اور دیگر بڑی شخصیات کی جنسی ہوس کو پورا کرنا ہی رہ گیا تھا۔ اب ان کے پاس مال و دولت بھی کم ہو گئی تھی۔ آرام و آسائش سے زندگی گزارنے والی ماتا ہری کے لیے یہ ایک بڑی تکلیف دہ بات تھی۔
جاسوسی کا آغاز
سن انیس سو سولہ میں ماتا ہری نے رقوم کی خاطر فرانس کی جاسوسی کرنے کی حامی بھری۔ تب ایک جرمن سفارتکار نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فرانسیسی راز جرمن حکومت کو فراہم کریں گی تو ان کے تمام قرضہ جات ادا کر دیے جائیں گے۔ ماتا ہری کے لیے اس مشکل وقت میں اور کیا راستہ ہو سکتا تھا؟
’ڈبل ایجنٹ‘
بعد ازاں ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کو پیشکش کر دی کہ وہ ان کے لیے بھی جاسوسی کا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت فرانسیسی حکام کو پہلے سے شبہ ہو چکا تھا کہ یہ خوبرو خاتون جرمنوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی خفیہ اداروں نے انہیں کئی مشن دیے لیکن اس دوران ماتا ہری کی نگرانی جاری رہی۔
شک یقین میں بدل گیا
فرانسیسی خفیہ اداروں کا شک اس وقت یقین میں بدلا، جب ماتا ہری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فیٹل کے مشرقی محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ اس وقت وہاں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ماتا ہری کے مطابق وہ وہاں اپنے ایک روسی فوجی دوست سے ملنے جانا چاہتی تھی۔
سزائے موت
جنوری سن انیس سو سترہ میں فرانسیسی حکام کو یقین ہو گیا کہ ماتا ہری جرمن فوج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ جرمن فوج نے ماتا ہری کا نام ایجنٹ H21 رکھا ہوا تھا۔ تب ہری کو ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں پچیس جولائی سن انیس سو سترہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
موت کے منہ سے ’فلائینگ کس‘
کہا جاتا ہے کہ پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ کو جب سزائے موت پر عملدرآمد کی خاطر ماتا ہری کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا اور شوٹنگ سے پہلے انہوں نے فائرنگ اسکواڈ کی طرف ’فلائینگ کس‘ بھی کیے۔
پاپولر کلچر
ماتا ہری کی زندگی پر ادب بھی تخلیق کیا گیا اور کئی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ تحقیقات کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ماتا ہری نے ڈبل ایجنٹ کے طور پر جرمن اور فرانسیسی افواج کو کیا کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ اب بھی کئی حلقے ماتا ہری کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔