مصری عوام آج بھی عدم تحفظ کا شکار
24 جنوری 2013جمعہ 25 جنوری کو مصری عوام انقلاب کی دوسری سالگرہ منائے گی اور عوام عالمی سطح پر انقلاب کی علامت بن جانے والے التحریر اسکوائر پر جمع ہوں گے۔ دو سال پہلے تبدیلی کی جدوجہد کرنے والے یہ لوگ آج اپنے پہلے منتخب عوامی صدر اور ان کی حکومت سے بھی مطمئن نظر نہیں آتے۔
مصری عوام آج بھی اپنے آپ کو عدم تحفظ کا شکار سمجھتی ہے۔ ان کے خیال میں طاقت کے نشے میں دھت اور اپنے آ پ کو قانون سے بالا تر سمجھنے والے پولیس افسران کا عوام سے رویہ انتہائی غیر انسانی ہے۔ یہ پولیس کے وحشیانہ مظالم اور اختیارات کے بے جا استعمال ہی کا نتیجہ تھا جس نے عوامی احتجاج کو ملک گیر مظاہروں میں بدل دیا تھا۔
مصر میں انسانی حقوق کی علمبردار ایک تنظیم Egyption Initiative for Personal Rights ’ای پی آر‘ کے مطابق موجودہ حکومت کی جانب سے پولیس کے نظام میں حقیقی تبلدیلیاں تو کُجا کسی بھی قسم کی علامتی تبدیلیاں بھی نہیں کی گئیں۔ حتٰی کے ان افسران کے خلاف بھی کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوسکی جنہوں نے حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں کے دوران مظاہرین پر تشدد اور انہیں ہلاک کیا تھا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ2011ء میں بڑی احتجاجی ریلیوں کے منتظمین نے احتجاج کے لیے 25جنوری کو منائے جانے والے ’یوم پولیس‘ کو مظاہروں کے لیے منتخب کیا تھا۔ 18روز تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں875 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ پولیس کی زیادتیوں سے تنگ لوگوں نے بہت سے پولیس اسٹیشن نذر آتش کر دیے۔
ای پی آر کے مطابق ملکی وزیر داخلہ پولیس کی اصلاح کے بجائے مسلسل اس ادارے کا دفاع کر رہے ہیں۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ ایسے پولیس افسران جن پر مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں ان کے خلاف قائم مقدمات پر کارروائی تا حال مؤخر ہے جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو کمزور قوانین اور ثبوت کی عدم دستیابی پر بری ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسکندریہ کے علاقے میں اس وقت جھڑپیں شروع ہوگئیں جب مبارک حکومت کے خلاف مظاہروں میں لوگوں کے قتل میں ملوث پولیس افسران کے خلاف مقدمے کی سماعت کے موقع پر ایک مقامی عدالت کے باہر جمع افراد کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اسی طرح کا ایک واقع قاہرہ کے نواحی علاقے میں بھی پیش آیا جہاں پولیس کی فائرنگ سے ایک شہری کی ہلاکت کے بعد پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ مبارک حکومت کے خاتمے کو25 جنوری کو دو سال مکمل ہو جائیں گے اس موقع پر حالیہ واقعات نے لوگوں کو تشیویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
وزیر داخلہ محمد ابراہیم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جمعے کے روز کے لیے ایک سکیورٹی منصوبہ ترتیب دے دیا گیا ہے۔ پولیس تحریر اسکوائر کے باہر موجود رہے گی جبکہ اندر کی سکیورٹی ریلی کے منتظمین کے ذمہ ہوگی۔
گزشتہ چند مہینوں سے انسانی حقوق سے متعلق عالمی اور مقامی ادارے پولیس اور عوام کے درمیان موجود بد اعتمادی کی فضا کی جانب توجہ مبذول کروا رہے ہیں لیکن جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق گزشتہ برس جولائی میں محمد مُرسی کی حکومت قائم ہونے سے لیکر اب تک پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔
zb/aba (dpa)