مصر اور پاکستان افغان فورسز کو تربیت دینے کے لئے تیار
12 جنوری 2010پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کو طالبان کے خلاف اپنی جنگ افغانستان ہی میں لڑنا چاہیے تاکہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر نہ پڑیں۔ ابو ظہبی میں افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے منعقدہ اس بین لاقوامی کانفرنس کے موقع پر شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کو پاکستان میں حل نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اسلام آباد ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان میں دلچسپی رکھتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں اس کانفرنس میں چالیس ممالک کے اعلیٰ نمائندوں نے شرکت کی۔ 28 جنوری کو افغانستان ہی کے بارے میں ایک سربراہی کانفرنس برطانوی دارالحکومت لندن میں منعقد ہوگی، جس میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شرکت کریں گے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر لندن کانفرنس کے تناظر میں دیکھا جائے تو منگل کے روز ابوظہبی میں ہونے والی یہ کانفرنس بھی افغانستان کے مستقبل کے حوا لے سےانتہائی اہم تھی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی سمیت پاکستانی عوام اپنے ملک کو درپیش تمام چیلنجوں سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ جوانمردی سے ان مسائل کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کو بھی اپنے ہاں مقامی طالبان کی عسکریت پسندی کا سامنا ہے۔ یہ عسکریت پسند سن 2007 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ یہ پاکستانی شدت پسند افغانستان میں وہاں کے طالبان کے خلاف آٹھ سال سے جاری امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی جنگ میں اسلام آباد حکومت کی طرف سے تعاون کے بھی شدید مخالف ہیں۔
ابوظہبی میں مختلف ملکوں کے پاکستان اور افغانستان کے لئے خصوصی مندوبین کی اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیرِخارجہ رنگین دادفر سپانتا نے کہا کہ افغانستان میں صرف امریکی افواج کی تعداد میں اضافے سے تمام ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ فوجی اضافہ ایک جامع پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ سپانتا کے بقول اس جامع پالیسی میں افغانستان کی تعمیرِ نو کے لئے دیرپا حکمت عملی، افغانستان میں ریاستی اداروں کی مضبوطی اور اختیارات افغان عوام کے نمائندوں کو منتقل کرنے کی تیاریاں بھی شامل ہونی چاہیئں۔
اسی کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ قریشی اور مصری نائب وزیر خارجہ وفا بصیم نے اسلام آباد اور قاہرہ حکومتوں کی اس پیشکش کو بھی دہرایا کہ یہ دونوں ملک افغان سیکیورٹی دستوں کی تربیت میں کابل حکومت کی بھر پور مدد کرنے کی خواہش مند ہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک