1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں بحران پر اسرائیل اور فلسطینیوں کا متضاد ردعمل

1 فروری 2011

مصر میں بحرانی حالات پر اسرائیل اور فلسطینیوں کی طرف سے صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک کے حوالے سے قطعی مختلف آراء دیکھنے اور سننے میں آ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/108bf
ہم نے صدر مبارک کی بڑی عزت کی ہے اور کرتے ہیں، اسرائیلی صدر پیریزتصویر: AP

ایک طرف اگر اس تحریک کے نتیجے میں مثبت تبدیلی کی امید کا اظہار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف خطے میں امن اور سلامتی کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ مغربی اردن کا خطہ ہو یا حماس کے زیر انتطام غزہ کی پٹی، فلسطینی علاقوں میں ایک ہی رائے سننے کو ملتی ہے۔

رام اللہ کے رہنے والے کریم نامی ایک فلسطینی شہری کا کہنا ہے: ’’مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے، عشروں پہلے ہونا چاہیے تھا۔ ہم مصری عوام کی حمایت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ ایک بہتر تبدیلی دیکھیں گے نہ کہ کوئی منفی تبدیلی۔‘‘

سیاسی حوالے سے فلسطینی جب حسنی مبارک کا نام سنتے ہیں تو ان کے چہروں پر ناگواری نظر آنے لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے مبارک انتظامیہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے، حالانکہ اس دوران یہودی آبادکاروں کی بستیوں کے لیے وہ زمین زیادہ سے زیادہ اسرائیلی قبضے میں لی جاتی رہی، جس پر فلسطینیوں کی آزاد ریاست قائم کی جانا تھی۔ اس کے علاوہ جب اسرائیل نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کی، تو بھی مصری صدر مبارک نے اسرائیل ہی کا ساتھ دیا۔

NO FLASH Abbas Palästina Griechenland Athen
فلسطینی صدر محمود عباس مصر کے بحران سے متعلق کوئی واضح بیان دینے سے ہچکچا رہے ہیںتصویر: AP

ایسی ہی شکایتیں مغربی اردن کے علاوہ غزہ پٹی کے علاقے سے بھی سننے میں آتی ہیں۔ غزہ سٹی کے رہنے والے عبدالقادر ابو شعبان کا کہنا ہے: ’’پورے تیس، اکتیس برس۔ یورپی ریاستوں اور دیگر ملکوں میں تو ہر چند سال بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ وراثت نہیں چلتی۔ سیاسی قیادت ایسی ہونی چاہیے۔‘‘

متحارب فلسطینی تنظیمیں حماس اور فتح تحریک مصر میں بحران سے متعلق کوئی بھی بڑا سیاسی بیان دینے سے ہچکچا رہی ہیں۔ اس لیے کہ حسنی مبارک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے فلسطینی صدر محمود عباس کے امریکی حکومت کی طرح بہت بڑے اتحادی ہیں۔ حماس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ناکہ بندی سے متاثرہ غزہ پٹی کے علاقے میں اس کے اقتدار کے تسلسل اور اشیاء کی فراہمی کے لیے اسے مصری سکیورٹی ڈھانچے کی مدد حاصل رہے۔

اسرائیل اپنے تمام تر ریاستی اور سیاسی وسائل کے ساتھ یہ وکالت کر رہا ہے کہ مصر میں اقتدار حسنی مبارک ہی کے پاس رہنا چاہیے۔ اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے آج منگل کے روز یروشلم میں کہا کہ مصر میں کوئی بنیاد پرست مذہبی حکومت وہاں جمہوریت میں پائی جانے والی موجودہ خامیوں سے بہتر نہیں ہو گی۔

اسرائیلی صدر کے مطابق، ’’ہم نے صدر مبارک کی ہمیشہ بڑی عزت کی ہے اور کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے سب کچھ ہی درست کیا ہے۔ لیکن انہوں نے ایک کام ضرور کیا، جس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امن کو یقینی بنائے رکھا۔‘‘

NO FLASH Ägypten Mubarak Kairo Proteste Panzer Demonstration 01.02.2011
لاکھوں شہریوں کا احتجاج: حالات بظاہر صدر مبارک کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

اسرائیلی عوام میں مصر سے مسلسل ملنے والی رپورٹوں پر بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ یروشلم کے ایک ریستوراں میں ایرک گولڈ مین نامی ایک اسرائیلی نے کہا کہ بہترین حل تو یہ ہے کہ حسنی مبارک اقتدار میں رہیں۔

اس اسرائیلی شہری کے بقول، ’’اسرائیل کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ کوئی انتہائی اسلام پسند تحریک اقتدار میں نہ آئے۔ ابھی تک ہمیں حسنی مبارک کا کوئی بھی متبادل نظر نہیں آتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مبارک اس حالت میں رہیں گے کہ صورت حال کو قابو میں رکھ سکیں۔‘‘

مصر میں بحرانی صورت حال سے متعلق اسرائیلی رہنماؤں اور عوام کی یہی سوچ ملکی میڈیا میں بھی ہر جگہ نظر آتی ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں