مصر میں بحران پر اسرائیل اور فلسطینیوں کا متضاد ردعمل
1 فروری 2011ایک طرف اگر اس تحریک کے نتیجے میں مثبت تبدیلی کی امید کا اظہار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف خطے میں امن اور سلامتی کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ مغربی اردن کا خطہ ہو یا حماس کے زیر انتطام غزہ کی پٹی، فلسطینی علاقوں میں ایک ہی رائے سننے کو ملتی ہے۔
رام اللہ کے رہنے والے کریم نامی ایک فلسطینی شہری کا کہنا ہے: ’’مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے، عشروں پہلے ہونا چاہیے تھا۔ ہم مصری عوام کی حمایت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ ایک بہتر تبدیلی دیکھیں گے نہ کہ کوئی منفی تبدیلی۔‘‘
سیاسی حوالے سے فلسطینی جب حسنی مبارک کا نام سنتے ہیں تو ان کے چہروں پر ناگواری نظر آنے لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے سے مبارک انتظامیہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے، حالانکہ اس دوران یہودی آبادکاروں کی بستیوں کے لیے وہ زمین زیادہ سے زیادہ اسرائیلی قبضے میں لی جاتی رہی، جس پر فلسطینیوں کی آزاد ریاست قائم کی جانا تھی۔ اس کے علاوہ جب اسرائیل نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کی، تو بھی مصری صدر مبارک نے اسرائیل ہی کا ساتھ دیا۔
ایسی ہی شکایتیں مغربی اردن کے علاوہ غزہ پٹی کے علاقے سے بھی سننے میں آتی ہیں۔ غزہ سٹی کے رہنے والے عبدالقادر ابو شعبان کا کہنا ہے: ’’پورے تیس، اکتیس برس۔ یورپی ریاستوں اور دیگر ملکوں میں تو ہر چند سال بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ وراثت نہیں چلتی۔ سیاسی قیادت ایسی ہونی چاہیے۔‘‘
متحارب فلسطینی تنظیمیں حماس اور فتح تحریک مصر میں بحران سے متعلق کوئی بھی بڑا سیاسی بیان دینے سے ہچکچا رہی ہیں۔ اس لیے کہ حسنی مبارک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے فلسطینی صدر محمود عباس کے امریکی حکومت کی طرح بہت بڑے اتحادی ہیں۔ حماس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ناکہ بندی سے متاثرہ غزہ پٹی کے علاقے میں اس کے اقتدار کے تسلسل اور اشیاء کی فراہمی کے لیے اسے مصری سکیورٹی ڈھانچے کی مدد حاصل رہے۔
اسرائیل اپنے تمام تر ریاستی اور سیاسی وسائل کے ساتھ یہ وکالت کر رہا ہے کہ مصر میں اقتدار حسنی مبارک ہی کے پاس رہنا چاہیے۔ اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے آج منگل کے روز یروشلم میں کہا کہ مصر میں کوئی بنیاد پرست مذہبی حکومت وہاں جمہوریت میں پائی جانے والی موجودہ خامیوں سے بہتر نہیں ہو گی۔
اسرائیلی صدر کے مطابق، ’’ہم نے صدر مبارک کی ہمیشہ بڑی عزت کی ہے اور کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے سب کچھ ہی درست کیا ہے۔ لیکن انہوں نے ایک کام ضرور کیا، جس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امن کو یقینی بنائے رکھا۔‘‘
اسرائیلی عوام میں مصر سے مسلسل ملنے والی رپورٹوں پر بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ یروشلم کے ایک ریستوراں میں ایرک گولڈ مین نامی ایک اسرائیلی نے کہا کہ بہترین حل تو یہ ہے کہ حسنی مبارک اقتدار میں رہیں۔
اس اسرائیلی شہری کے بقول، ’’اسرائیل کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ کوئی انتہائی اسلام پسند تحریک اقتدار میں نہ آئے۔ ابھی تک ہمیں حسنی مبارک کا کوئی بھی متبادل نظر نہیں آتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مبارک اس حالت میں رہیں گے کہ صورت حال کو قابو میں رکھ سکیں۔‘‘
مصر میں بحرانی صورت حال سے متعلق اسرائیلی رہنماؤں اور عوام کی یہی سوچ ملکی میڈیا میں بھی ہر جگہ نظر آتی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی