مصر میں خونریزی کی عالمی سطح پر مذمت
15 اگست 2013مصر میں معزول صدر محمد مرسی کی بحالی کے لیے دھرنے دیے ہوئے اخوان المسلمون کے حامیوں پر گزشتہ روز کیے جانے والی حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 525 بتائی جا رہی ہے۔ مصر میں کئی عشروں بعد بھڑکنے والے اس خونریز تشدد پر عالمی برادری نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
دارالحکومت قاہرہ میں دو مختلف مقامات پر اسلام پسندوں کے دھرنے ختم کرانے کے لیے کیے گئے اس آپریشن کو اقوام متحدہ نے انتہائی ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ ادھر فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے اپنے اپنے ممالک میں تعینات مصر کے سفیروں کو طلب کر کے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مصر میں مرسی کے حامیوں کے خلاف جاری ’قتل عام‘ کو رکوانے کے لیے فوری طور پر ایکشن لے۔ چین نے مصر میں اطراف پر زور دیا ہے کہ وہ اس مخصوص صورتحال میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں جبکہ ماسکو حکومت نے صرف روسی سیاحوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ مصر کا رخ نہ کریں۔
صرف دو خلیجی ریاستوں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مصر کی فوج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں ممالک کی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے ممالک میں اسلام پسندوں کی خلاف کارروائی کی ہے۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا ہے، ’مصر کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کی ضرورت ہے‘۔ ان کی حکومت نے پیرس میں تعینات مصری سفیر کو طلب کر کے ’مصر میں رونما ہونے والے المناک واقعات‘ پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ پیرس حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ’’ فرانس مصر میں سیاسی حل کی تلاش کے لیے پر عزم ہے اور اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہاں جلد از جلد انتخابات کا انعقاد کرایا جائے۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے جمعرات کے دن مصر میں اطراف پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ محمد مرسی کے حامی ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو مصر کے موجودہ حالات میں پر ایک ہنگامی میٹنگ بلوانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرسی کے حامیوں کے ’قتل عام‘ کو روک دیا جانا چاہیے۔
فوج کی طرف سے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹانے پر امریکا نے ابتدائی طور پر نہ تو تنقید نہیں کی تھی اور نا ہی ’بغاوت‘ کی ترکیب استعمال کی تھی۔ تاہم اب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے مصر میں انتخابات منعقد کرانے کے مطالبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے مصری فوج کی حامی سول حکومت کو ماضی میں دکھائی جانے والی حمایت واپس لے لی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ واشنگٹن حکومت مصری فوج کو سالانہ 1.3بلین ڈالر کی مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ 1979ء میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد مصر ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا تھا، جو امریکا سے بڑے پیمانے پر مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان نے بھی مصر کی بحرانی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مصر میں معصوم جانوں کے ضائع پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حالیہ پر تشدد واقعات کے نتیجے میں مصر میں جمہوریت کو دھچکا لگا ہے۔