مصر میں مبارک دور کے خاتمے کے لیے ’یوم رخصت‘
4 فروری 2011حسنی مبارک کے مخالف اپوزیشن مظاہرین نے انہیں اقتدار سے رخصتی کے لیے آج جمعہ تک کا وقت دے رکھا تھا۔ اسی لیے اس ’یوم رخصت‘ کے نقطہ عروج پر قاہرہ کے التحریر چوک میں دن کے آغاز ہی سے مظاہرین بہت بڑی تعداد میں جمع ہیں، جنہوں نے آج جمعہ کی نماز بھی وہیں پڑھی۔
صدر مبارک اب تک یہ کہتے ہیں کہ وہ صدارت سے مستعفی ہو تو سکتے ہیں مگر فوری طور پر ان کے ایسا کرنے سے ملک مزید انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ مصر میں ان مظاہروں کے دوران اب تک سینکڑوں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے صرف گزشتہ دو روز کے دوران ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ اور زخمیوں کی تعداد 800 سے زیادہ رہی۔
مبارک انتظامیہ کی طرف سے نائب صدر عمر سلیمان اپوزیشن کے سب سے بڑے گروپ اخوان المسلمین کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں، جو اس گروپ نے مسترد کر دی ہے۔ اخوان المسلمین کا کہنا ہے کہ اس کا مطالبہ صدر مبارک کا استعفیٰ ہے، اور جیسے ہی یہ واحد مطالبہ پورا ہوا، مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے۔
التحریر چوک میں آج جمعہ کی نماز سے پہلے اور بعد میں بھی مظاہرین مسلسل یہ نعرے لگاتے رہے کہ مبارک انتظامیہ کو ہر حال میں ختم ہونا ہو گا، قاتلوں پر مقدمے چلائے جائیں اور مصری فوج اور عوام متحد ہیں۔
دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر بہت سے رہنما حسنی مبارک کی طرف سے عوامی مطالبات تسلیم کیے جانے سے متعلق جو بیانات دے رہے ہیں، ان پر اپنے رد عمل میں مصر میں حکمران جماعت این ڈی پی کے سیکریٹری جنرل ابراہیم کمال نے آج مغربی میڈیا پر بھی بہت کھل کر تنقید کی۔
ایک یورپی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ابراہیم کمال نے کہا، ’’مجھے افسوس ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ مصر کے خلاف ایک گندی مہم چلا رہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جب حالات کچھ بہتر ہو جائیں گے، تو آپ مصری عوام سے معافی مانگیں گے، کیونکہ جو کچھ التحریر چوک میں ہو رہا ہے، مصری شہریوں کی اکثریت اسے مسترد کرتی ہے۔ شکر ہے کہ صدر مبارک عوام کی اکثریت کو سڑکوں پر نکلنے سے روکے ہوئے ہیں۔‘‘
اسی دوران مصری اپوزیشن کے نوبل امن انعام یافتہ رہنما محمد البرادعی نے آج قاہرہ میں ایک بار پھر کہا کہ حسنی مبارک کو عزت اور وقار کے ساتھ مستعفی ہو جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ مصر ہی سے تعلق رکھنے والے عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل امر موسیٰ بھی آج اس لیے قاہرہ کے التحریر چوک میں پہنچ گئے کہ وہاں جمع مظاہرین کو مشتعل ہونے اور یوں مزید خونریزی سے روک سکیں۔
برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمن حکومت نے مصر میں اسی داخلی بدامنی کے باعث قاہرہ کو جرمن ہتھیاروں کی برآمدات روک دی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق تنظیم کی خاتون سربراہ ناوی پیلائی نے جنیوا میں کہا کہ مصری باشندے قومی تبدیلی کے اسی تجربے سے گزریں گے جیسا پچھلے مہینے تیونس میں بھی عوامی احتجاج کے نتیجے میں دیکھنے میں آیا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان