1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مصنوعی اعضاء‘ اعضاء کے عطیے کا نعم البدل

عدنان اسحاق7 مئی 2015

اعضاء کی پیوند کاری کی بات کی جائے تو گردوں کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور ان کی کمی بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم اب ماہرین مصنوعی اعضاء بنانے پر تحقیق کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FMGf
تصویر: picture-alliance/dpa

دنیا بھر میں ماہرین اب اِس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کس طرح مصنوعی گردے یا مصنوعی جگر تیار کیے جائیں۔ اِس کی ایک مثال ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ہے، جہاں ڈاکٹر ہارالڈ اوٹ سات برس قبل ہی اپنی تحقیق کی بدولت عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ڈاکٹر اوٹ نے اپنی ہی لیبارٹری میں ابتدائی طور پر چوہوں کا مصنوعی دل بنایا، جو دھڑکتا بھی تھا۔ آسٹریا میں پیدا ہونے والے اِس ڈاکٹر نے دو سال بعد ہی ایک مصنوعی جگر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کامیابی کے بعد انہوں نے مصنوعی جگر کی پیوندکاری کا پہلا تجربہ بھی چوہوں پر ہی کیا۔ اُن کا تخلیق کیا جانے والا جگر دو ہفتوں تک کام کرتا رہا۔

اِس کے تقریباً دو سال بعد وہ یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ مصنوعی گردے کس طرح بنائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی چوہوں پر ہی تجربہ کیا گیا۔ ابتدائی طور پر اوٹ نے گردے جیسا ایک عضو تخلیق کیا، جس سے مثانہ اور پیشاب کی نالی بھی جڑی ہوئی تھی۔ پھر اِسے ایک بائیو ری ایکٹر میں رکھ کر اُس میں خلیے بھی داخل کیے۔ دو ہفتوں بعد ہی یہ باقاعدہ ایک کارآمد گردے میں تبدیل ہو گیا۔ بعد ازاں چوہے میں اِس کی پیوند کاری کی گئی اور خون کی نالیوں سے بھی اِسے جوڑا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور گردے نے کام کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک کہ اوٹ کے تیار کردہ اِس گردے نے پیشاب بھی خارج کیا۔

Das menschliche Herz
تصویر: picture-alliance/dpa

تاہم اس مصنوعی گردے کی صلاحیت صرف بیس فیصد تک ہی تھی۔ مگر پیوند کاری کے بعد اِس کی صلاحیت صرف پانچ سے دس فیصد تک ہی رہ گئی تھی۔گوکہ مصنوعی گردے کا یہ تجربہ جزوی طور پر ہی کامیاب ہو سکا تاہم متعدد محققین کا خیال ہے کہ صحیح سمت میں یہ پہلا قدم ہے۔ کیونکہ مصنوعی گردے کا سو فیصد کام کرنا لازمی نہیں ہے اور یہ ڈائلیسس کے مریض کو مدد بھی فراہم کر سکتا ہے۔

دوسری جانب مصنوعی دل اور پھیپڑوں کے انسانی خلیوں کے ساتھ تجربے کیے جا چکے ہیں اور اب اِسی طرح کا تجربہ گردوں پر بھی کیا جانا چاہیے۔ اِس سے یہ ثابت ہوا کہ بظاہر جسم نے اس پیوند کاری کو بغیر کسی رد عمل کے قبول کر لیا۔ اس طرح مریض کو وہ ادویات بھی نہیں لینی پڑیں گی، جوپیوند کاری کے عام آپریشن کے بعد اُسے کھانی پڑتی ہیں۔ مصنوعی اعضاء کی پیوند کاری سے مریض کا مدافعاتی نظام بھی متاثر نہیں ہو گا۔