مصنوعی ذہانت سے موت کے وقت کی درست پیش گوئی ممکن، نئی تحقیق
21 دسمبر 2023ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈنمارک (ڈی ٹی یو) سے وابستہ محققین نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی موت کے وقت کی درست پیشن گوئی کرنے والے ایک آلے کو تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لائف ٹو ویک (life2vec) نامی یہ آلہ فرد کی صحت، تعلیم، ذریعہ معاش اور آمدنی کی ذاتی معلومات کی بنیاد پر اس کے موت کی پیشن گوئی کرتا ہے۔
سائنس دانوں نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے اس ماڈل کو ڈنمارک کی آبادی کے ذاتی ڈیٹا سے ترتیب دیا گیا ہے، جو کسی بھی موجودہ نظام سے زیادہ درست طریقے سے لوگوں کے مرنے کے امکانات کی پیشن گوئی کرنے کے قابل ہے۔
مصنوعی ذہانت قانون کی جکڑ ميں، معاہدے پر اتفاق
انہوں نے بتایاکہ اس کام کے لیے سن 2008 سے 2020 کے درمیان ساٹھ لاکھ افراد کے صحت اور لیبر مارکیٹ ڈیٹا کا استعمال کیا گیا اور اس کے ذریعہ موت کے وقت کی 78 فیصد درست پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔ اس ڈیٹا میں لوگوں کی تعلیم، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے دورے، مرض کی تشخیص، آمدنی اور پیشہ کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا۔
یہ کیسے ممکن ہوا؟
سائنس دانوں نے چیٹ جی پی ٹی جیسی اے آئی ایپس کے پیچھے کارفرما ٹیکنالوجی کی طرح ڈیٹا سیٹ کے الفاظ کو تبدیل کرکے ایک بڑا لینگویج ماڈل ترتیب دیا جسے life2vec کا نام دیاگیا ہے۔
سائنسی جریدے 'نیچر کمیوٹیشنل سائنس' میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ایک بار جب مصنوعی ذہانت ماڈل نے ڈیٹا کے پیٹرن سیکھ لیے تو یہ دوسرے جدید نظاموں کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے اور بالکل درستگی کے ساتھ شخصیت اور موت کے وقت جیسے نتائج کی پیشن گوئی کرسکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے سربراہی اجلاس میں حفاظتی اقدامات کے ڈھانچے پر اتفاق
اس تحقیقات کے سربراہ ڈاکٹر لیہمن نے کہا کہ "ہم نے بنیادی سوال کو حل کرنے کے لیے ماڈل کا استعمال کیا، یعنی ہم آپ کے ماضی کے حالات اور واقعات کی بنیاد پر آپ کے مستقبل میں ہونے والے واقعات کی کس حد تک پیشن گوئی کر سکتے ہیں؟"
انہوں نے مزید کہا کہ سائنسی طور پر جو چیز ہمارے لیے پرجوش ہے وہ پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ اعداد و شمار کے وہ پہلو ہیں جو ماڈل کو ایسے درست جوابات فراہم کرنے کے قابل بناتے ہیں۔"
ڈی ڈبلیو تخلیقی مصنوعی ذہانت سے کیسے نمٹ رہا ہے؟
ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے عام سوالات کے جوابات ڈھونڈے جیسے چار سال کے اندر کسی شخص کے مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے پایا کہ ماڈل کے جوابات موجودہ نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں جیسے کہ جب دیگر تمام عوامل پر غور کیا جائے تو اعلیٰ عہدے پر یا زیادہ آمدنی والے افراد کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور مرد ہونے، ہنرمند ہونے یا ذہنی مرض کی تشخیص والے افراد میں مرنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
محققین کے خدشات
محققین نے خبردار کیا کہ اخلاقی خدشات کی وجہ سے لائف انشورنس کمپنیوں کو اس ماڈل کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر لیہمن کا کہنا تھا، "واضح طور پر ہمارے ماڈل کو کسی انشورنس کمپنی کو استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انشورنس کے حوالے سے تصور یہ ہے کہ کسی حادثاتی واقعے یا موت سے متاثر ہونے والا بدقسمت شخص کون ہو گا، اس کے بارے میں معلومات میں اضافہ نہ کرتے ہوئے ہم اس بوجھ کو ایک طرح سے بانٹ سکتے ہیں۔"
چھاتی کے سرطان کی تشخيص ميں مصنوعی ذہانت معاون
محققین نے 'لائیف ٹو ویک' کے استعمال سے حساس ڈیٹا کی حفاظت، رازداری اورڈیٹا میں تعصب کا کردار جیسے اخلاقی مسائل کے سلسلے میں بھی متنبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا، "ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارا کام ممکنہ حالات کی تلاش کرنا ہے لیکن اسے صرف ان ضوابط کے تحت حقیقی دنیا کی ایپلی کیشنز میں استعمال کیا جانا چاہئے جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔"
ج ا/ ص ز (نیوز ایجنسیاں)