مظاہروں پر قابو پانے کے لیے اسمارٹ فون چینی حکام کے نشانے پر
2 دسمبر 2022چین میں وکلاء اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں حکام لاک ڈاؤن مخالف مظاہروں کو کم کرنے کے لیے نگرانی کے جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ کئی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شنگھائی جیسے بڑے شہروں میں پولیس سڑکوں پر یا سب ویز پر اچانک لوگوں کے فون چیک کر رہی ہے۔ پولیس نے لوگوں سے ذاتی معلومات فراہم کرنے اور ٹیلی گرام، ٹوئٹر یا انسٹاگرام جیسی ایپس کو فوری طور پر ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسمارٹ فون کی تلاشی
کچھ دیگر شہریوں کا کہنا ہےکہپولیس نے انہیں طلب کر کے ان کے فون کی تلاشی لی تھی۔ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے والے لِن نامی ایک شہری نے بتایا، ''پولیس نے مجھے ٹیلی گرام کا استعمال نہ کرنے کی تنبیہ کی اور مجھے سافٹ ویئر کے ذریعے وبائی امراض کے بارے میں معلومات کا اشتراک بند کرنے کو کہا۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''مجھے سڑک پر نہیں روکا گیا۔ مجھے شبہ ہے کہ پولیس کو پتہ چلا کہ میں ٹیلی گرام استعمال کر رہا ہوں۔ مجھے پولیس کی طرف سے دو الگ الگ کالیں موصول ہوئیں، جن میں مجھے خبردار کیا گیا کہ وبائی بیماری یا احتجاج کے بارے میں کچھ بھی شیئر نہ کرنا۔ میرے والد کو بھی ان (پولیس)کی طرف سے دھمکی آمیز کال موصول ہوئی۔‘‘
اسمارٹ فون ہیک کیے جانے کے خدشات
چین بھر میں 20 سے زائد مظاہرین کو قانونی مدد فراہم کرنے والے وکیل شینگ شینگ وانگ کے مطابق پولیس لوگوں کو حراست میں لے رہی ہے اور ان کے فون ضبط کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی ترجیح مظاہرین کے فون تک رسائی حاصل کرنا رہی ہے، '' ان میں سے کچھ رہا ہونے کے بعد اپنے فون واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن کچھ لوگ رہا ہونے کے بعد بھی پولیس سے اپنے فون واپس نہیں لے سکے۔‘‘
وانگ کے مطابق گوانگژو میں کئی مظاہرین نے انہیں بتایا کہ پولیس کو ذاتی شناختی نمبر فراہم کرنے کے بعد ان کے ٹیلی گرام اکاؤنٹس میں لاگ ان کرنے کی بیرونی کوششیں دیکھی گئیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''ہیکنگ کی کوششیں اس وقت ہوئیں جب ان کے پاس فون تھے اور چونکہ یہی کچھ متعدد مظاہرین کے ساتھ ہوا اس لیے یہ محض اتفاق نہیں لگتا۔‘‘
بیجنگ میں دیگر مظاہرین نے وانگ کو بتایا کہ انہیں احتجاج کے مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکنے کے بعد پولیس کی طرف سے کال موصول ہوئی۔ اس خاتون وکیل کے مطابق، ''انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ احتجاج سے روکنے کے ایک دن بعد انہیں اور ان کے دوستوں کو پولیس نے کیوں طلب کیا۔ ایک معقول شبہ یہ ہے کہ پولیس نے ایک مخصوص جگہ اور مخصوص وقت پر مظاہرین کے فون کی لوکیشن کا تعین کرنے کے لیے نگرانی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہو گا۔‘‘
وانگ پر چینی میسجنگ ایپ وی چیٹ پر گروپ پیغامات بھیجنے یا اسٹیٹس شیئر کرنے پر بھی عارضی طور پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں اپنی قانونی فرم کی کالوں سے بھی گریز کرتی رہی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وہ مقامی عدالتی محکمے کا پیغام مجھ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘
چین ایک نگران ریاست
سائبر سیکیورٹی تھنک ٹینک یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کے فیلو لوک مین سوئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینی پولیس کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہے کہ کسی خاص وقت میں کسی خاص مقام پر کون سے فون تھے۔ انہوں نے کہا،''چونکہ چین ایک نگرانی کرنے والی ریاست ہے جس میں قانون کی حکمرانی یا انسانی حقوق کا بہت کم خیال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ان کے لیے مشکل نہیں ہے۔‘‘
دیگر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ چونکہ یہمظاہرے اچانک کیے گئے تھے، اس لیے زیادہ تر شرکاء پہلے سے اس میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے چین کے لیے سینئیر محقق یاکیو وانگ کے مطابق، ''کچھ نوجوان مظاہرین نے پہلے کبھی اس طرح کے مظاہروں میں حصہ نہیں لیا، اس لیے ان کے پاس یہ جاننے کا تجربہ نہیں ہے کہ اپنی حفاظت کیسے کی جائے۔‘‘
جاپان کی میجی یونیورسٹی میں تقابلی قانون کے انسٹی ٹیوٹ کے محقق پیٹرک پون نے کہا کہ جن چینی شہریوں نے مظاہروں میں حصہ لیا ہے یا جو اب بھی مظاہروں میں شامل ہو رہے ہیں انہیں اپنے فون سے حساس ایپس کو ہٹانے پر غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا، خود کو بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حساس ایپس کو ڈیلیٹ کر دیا جائے۔ ایک مخصوص میسجنگ ایپ پر انحصار کرنے کے بجائے انہیں ان ایپس کو متنوع بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے جو وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
وانگ کے مطابق اگرچہ زیادہ تر مظاہرین یقینی طور پر پولیس کی طرف سے طلب کیے جانے کے بعد مزید مظاہروں میں شامل ہونے کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہوں گے لیکن کریک ڈاؤن دیگر افراد کی حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتا ہے اور وہ مستقبل میں حقیقی کارکن بن سکتے ہیں۔
ش ر⁄ ک م ( ولیم یانگ، تائپی)