یہ بچے پاکستان کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔ ہمیں کافی علم ہے کہ قدیم یونان سے لے کر آج تک کس طبقے نے کس طبقے پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ہمیں علم ہے کہ مظلوموں نے غاروں کے اندر پینٹنگز سے لے کر کتابوں تک میں اس بات کی خبر دی ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو رجسٹرڈ کیا ہے۔ لیکن بچے جو دیوتاوں کو خوش کرنے کے لیے قربانی کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ مار کھاتے رہے اور آج بھی بدترین ظلم کا شکار ہیں لیکن اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو کہیں رجسٹرڈ نہیں کروا سکے۔
چاہے حکومت ہو یا میڈیا، پچاس فیصد آبادی کو بری طرح نظر انداز کرنے کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ یہ طبقہ نہ ہی ووٹر ہے اور نہ ہی مصنوعات کا خریدار۔ باقی جہاں تک اس بات کا خیال ہے کہ یہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں تو جانے دیجیے یہ کتابی باتیں ہیں۔ ہم وقت کو دھکا دیتی وہ قوم ہیں، جس کی ساری توجہ آج کا دن گزرنے پر ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ یہ نہ صرف مقامی محاورے کا حصہ ہے بلکہ یہ محاورہ عقیدے کی حد تک ہماری نفسیات کا حصہ ہے۔
نفسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ دنیا میں مشکل ترین کام انسانی بچے کی تعلیم و تربیت ہے۔ اگر آپ سائنسی نکتہ نظر سے دیکھیں تو پرائمری جماعتوں کے استاد کو اعلی تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ گریجویٹ کلاس کو ایک گریجویٹ بھی پڑھا سکتا ہے لیکن پرائمری کی جماعتوں کو پڑھانے کے لیے غیر معمولی مہارتیں درکار ہیں۔ ان میں سب سے اعلی مہارت بچوں کی نفسیات سے آگہی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے، جیسے ہم بچے کی جسمانی حدود سے کافی حد تک واقف ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہمیں اس کی نفسیاتی حدود سے آگاہ ہونا لازم ہے۔
بچوں کے ساتھ ایک ظلم تو یہ ہوا کہ ان کو ہم نے بیسویں صدی میں بچہ سمجھنا شروع کیا۔ پرانی پیٹنگز کو جب ماہرین نفسیات غور سے دیکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس وقت بچوں کو بڑوں کی ہی ایک منی ایچر شکل تصور کیا جاتا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں فرائیڈ اور ان کے دوست غیر معمولی نظریات وضع کر رہے تھے۔ انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ان کے پاس بچے سے بہتر کوئی مخلوق نہیں تھی۔ جب بچوں پر مطالعہ شروع کیا گیا تو علم میں آیا کہ کیسے عقل کی ترقی کے باقاعدہ مراحل ہیں۔ مثال کے طور پر تجریدی صلاحیت یا خلاصہ کرنے کی مہارت انسان کے ذہن کی سب سے بڑی مہارت ہے، جس پر آج علم کی ساری عمارت کھڑی ہے۔
جب میرے سامنے فزکس کا لفظ آتا ہے تو مجھے معلوم ہے کہ اس خلاصہ لفظ کے پیچھے کیا ہے۔ یعنی اگر آپ میرے سامنے فزکس کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو مجھے ساری فزکس کو ازسر نو پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اس خلاصہ لفظ کے پیچھے کیا ہے؟ میں سمجھ کر آگے نکل جاتا ہوں۔ اسی طرح جب آپ میرے سامنے 9 کا ہندسہ رکھتے ہیں تو یہ محض ایک شکل ہوتی ہے لیکن اس شکل کے پیچھے کتنی مقدار ہے میں باآسانی سمجھ جاتا ہوں۔
اس تجریدی صلاحیت کا عقل کی ترقی سے تعلق ہے اور یہ صلاحیت بچے میں چھ سے سات سال میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے میں اس کو جمع تفریق اور ہندسوں سے متعلق حساب جتنا مرضی پڑھاتا رہوں اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ابھی یہ اس کی ذہنی حدود سے باہر ہے۔
ہم بچوں کو حساب سکھانے کے لیے مار پیٹ سے دریغ نہیں کرتے تھے، جس سے وہ سزا سے بچنے کے لیے توتوں کی مانند جواب دے دیتے تھے لیکن یہ خیال ہی مضحکہ خیز ہے کہ وہ اس کو سمجھ سکتے ہوں۔ ان سے اس تجریدی صلاحیت کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے، جیسے میں چار سال کے ایک بچے سے یہ توقع رکھوں کہ وہ سات فٹ کی ایک چھلانگ لگا لے۔ میں اس سے اس چھلانگ کی توقع اس لیے نہیں رکھتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس کی کچھ جسمانی حدود ہیں۔
بعد میں نفسیات دانوں کی ان دریافتوں کی وجہ سے نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں اور اگر 9 کے ہندسے کی قدر سیکھنا مقصود ہے تو 9 کے ہندسے کے آگے 9 بطخیں بنا دی جاتیں ہیں۔ اسی طرح عقل کی ترقی کے مراحل نے ہمیں بتایا کہ استدلالی یا قیاسی منطق سمجھنے کے لیے انسان کی عمر کا 9 سے 11 سال ہونا ضروری ہے۔
اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس عمر سے پہلے بچے کو الجبرا سیکھانا ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ واصف صاحب نے کسی جگہ ظلم کی تعریف یہ کی تھی کہ کسی بھی انسان سے ایسا کام لینے کی کوشش کرنا، جس کی صلاحیت اس کے اندر نہ ہو۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا بچے اس ظلم کے خلاف کوئی یونین بنا سکتے ہیں؟ کیا بچے اس ظلم کے خلاف کوئی سڑک بلاک کر سکتے ہیں؟ کیا اس ظلم پر احتجاج رجسٹرڈ کروانے کے لیے وہ ڈی چوک میں دھرنا دے سکتے ہیں؟ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کمزور ہوتے ہیں اور کمزوروں کی دادرسی کرنا ریاست کی ترجیح ہونی چاہیے۔
اس بحث میں کچھ ایسے منطقے آتے ہیں، جن پر بات کرنا ممنوع ہے کہ ارباب سیاست کی بنیادیں انہی پر استوار ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سائنسی کتاب کا پہلا باب دیکھ لیجئے آپ کو یہ بات سمجھنے میں چنداں دشواری نہیں ہوگی کہ ننھے ننھے ذہن فکری انتشار کا شکار نہیں ہوں گے تو اور کیا ہو گا؟
مزید یہ کہ ان موضوعات کو حساس جانا اور سمجھا جاتا اور بچے کو یہ فکری آزادی کسی طور حاصل نہیں ہے کہ وہ اس فکری انتشار سے نجات کے لیے سوال کا سہارا لے سکے۔ پہلی بات سوال کی آزادی نہیں۔ دوسری بات کہ کسی نے تجسس کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ اس طرح کا سوال کر ہی لیا کہ پانچویں باب میں ڈارون اور پہلے باب میں بتائی جانے والی حقیقتیں آپس میں متصادم کیوں ہیں؟ تو اس کو ایسے جواب سے نوازا جائے گا کہ آئندہ وہ سوال پوچھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔
سوال پوچھنے کی یہ پابندی کیا پیدا کر رہی ہے؟ معذوروں کے عالمی دن پر ایک ٹی وی شو میں مجھ سے پوچھا گیا کہ معذوروں کے حوالے سے ہم کن تعصبات کا شکار ہیں؟ میں نے کہا کہ تعصبات کو پہچاننے کی سطح تو بہت بعد میں آتی ہے، پہلے معذوری کی تعریف کرنا بہت ضروری ہے۔
سٹیفن ہاکنگ ہماری نظر میں معذور شخص ہے بلکہ معذوری کی انتہائی شکل پر کھڑا ہے جبکہ دوسری طرف وہ جو نظریات دے رہا ہے اور علم کی دنیا میں جو انکشافات کر رہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے دنیا میں آج بھی اربوں افراد ذہنی طور پر معذوری کا شکار ہیں اور سٹیفن ہاکنگ کی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
فرض کیجیے کہ میرے سامنے دو شخص ہیں۔ ایک سٹیفن ہاکنگ ہے اور دوسرا جسمانی حوالے سے ایک انتہائی تندرست شخص، جو بہت تیز دوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور بھاری وزن بھی اٹھا لیتا ہے۔ دوسری طرف سٹیفن یہ سب کچھ کرنے سے قاصر ہے، اس لیے اس عذر کے سبب ہم اس کو معذور تصور کریں گے لیکن جو کچھ سٹیفن کہہ رہا ہے وہ تیز دوڑنے والا شخص سمجھنے سے قاصر ہے۔
کیا اس عذر کے سبب ہم اس کو بھی معذور نہیں کہیں گے؟ کیا دنیا میں اربوں افراد تیز دوڑ سکنے کے باوجود معذور نہیں ہیں؟ اور سب سے اہم سوال کہ معذوری ہونے کے باوجود دنیا کو کس نے زیادہ مثبت سمت سے نوازا ہے؟ دنیا پر کون بوجھ ہے اور کون ہے، جس نے اپنی فکر سے انسانوں کے نظریات کی سمت کو درست کیا؟ معذوری کی جو شکل ہمارے ذہنوں میں راسخ ہے وہ بذات خود ایک بہت برا تعصب ہے۔
اب ہمیں اپنے نصاب، طریقہ تعلیم اور استاد کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ معاشرے میں معذوری کی کثرت کیوں ہوئی چلی جاتی ہے۔ یہ کون سی فیکٹریاں ہیں، جو اس قدر ہوشربا تعداد میں معذور پیدا کیے چلے جا رہی ہیں؟ پرائمری کے اساتذہ کے انتخاب کے لیے ہم نے کس سطح تعلیم اور صلاحیتوں کو شرط رکھا ہوا ہے؟ پرائمری کے منتخب کردہ اساتذہ بچوں کی نفسیات سے کس قدر واقفیت رکھتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو مضمون وہ پڑھا رہے ہیں کیا وہ اس مضمون سے اپنی ذات کی حد تک بھی عشق میں مبتلا ہیں؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔