معاشرتی قدروں کی کمزوری ، ’جنہیں اپنوں نے لُوٹا‘
24 نومبر 2011سماجی کارکنوں کے مطابق اپنے ہی بزرگوں کے بڑھاپے کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے اکثر غیر نہیں ہوتے بلکہ ان کے عزیز ہی ایسے ’کارنامے سرانجام‘ دیتے ہیں۔
مرض الزائمر خلل دماغی کی سب سے عام قسم ہے اور 70 برس کی عمر کے دس فیصد سے زائد افراد اس کا شکار ہوتے ہیں جبکہ 80 برس سے زائد کے تیس فیصد افراد اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں متاثرہ افراد کی یاداشت چھِن جاتی ہے، سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے، رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے روز مرہ امور کا انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں رہتے اور یوں ان کی اس حالت کا ناجائز فائدہ اٹھانا بہت آسان ہوتا ہے۔
ہانگ کانگ میں بزرگوں کے ساتھ ایسی زیادتیوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن اگینسٹ ایلڈرلی ایبیوز سے منسلک فُو وائی لوک کا کہنا ہے: ’’ہم اکثر ایسے کیسز کا سامنا کرتے ہیں، جن میں بچے اپنے والدین کے اکاؤنٹ سے پیسے نکال لیتے ہیں اور بزرگ ہم سے شکایت کرتے ہیں۔‘‘
فُو کے ایک ساتھی روئے لام کا کہنا ہے: ’’اس وقت ہمارے پاس ایسا ہی ایک کیس ہے، جس کے مطابق بیٹے نے کچھ برس پہلے اپنی والدہ کو ایک دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے کہا، جس کے ذریعے اسے اپنی والدہ کے رہائشی فلیٹ کی پاور آف اٹارنی مل گئی۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا: ’’اب اس نے اپنی والدہ کا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے اور جب ماں نے جائیداد سے حاصل ہونے والی کرایے کی رقم حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسے پتہ چلا کہ وہ تو اس کی ملکیت اپنے بیٹے کو منتقل کر چکی ہے۔‘‘
ایشیا میں بزرگوں سے ہونے والی ایسی زیادتیاں سنگارپور، جاپان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔
فُو کا کہنا ہے: ’’پہلے لوگ زیادہ روایت پسند ہوتے تھے۔ وہ اپنے بڑوں کی زیادہ عزت کرتے تھے۔ اب وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے اور ان کی نظر میں بڑوں کا احترام بھی کم ہو گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انہی وجوہات کی بناء پر بزرگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور انہیں مالی نقصان پہنچانے کے واقعات بھی زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: افسر اعوان