معاشی بنیادوں پر ہجرت کرنے والوں پر مزید سختی
12 جنوری 2016گزشتہ برس صرف پچاسی لاکھ کی آبادی والے ملک آسٹریا میں نوّے ہزار سے زائد مہاجرین نے پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔ مشرق وسطیٰ، افغانستان، پاکستان اور افریقی ممالک سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن آسٹریا ہی سے گزر کر جرمنی اور دیگر شمالی یورپی ممالک میں پناہ کی تلاش میں پہنچے تھے۔
آسٹرین چانسلر نے ایک ملکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، ’’کوئی پلان بی بھی ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جرمنی کے ساتھ مل کر معاشی تارکین وطن کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرتے ہوئے انہیں واپس بھیج دیں تاکہ مہاجرین کی مجموعی تعداد میں کمی ہو سکے۔‘‘
وفاقی چانسلر فےمان کا کہنا تھا کہ آسٹریا میں اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرنے والوں اور جنگوں کے باعث ہجرت کرنے والوں میں فرق کرنے کی خاطر قانونی راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے۔ ویرنر فےمان نے مزید کہا، ’’بہرحال ایک بات یقینی ہے، ہم جلد ہی اپنی سرحدوں پر مزید سختی کر دیں گے اور جرمنی بھی اس ضمن میں مزید اقدامات کرے گا۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی طرح آسٹریا کے چانسلر نے بھی مہاجرین کے بارے میں نرم پالیسی اختیار کر رکھی تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنے قدامت پسند سیاسی اتحادیوں اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی کو آسٹریا کے ایک تہائی عوام کی حمایت حاصل ہے۔
گزشتہ مہینے آسٹرین چانسلر نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے تارکین وطن جو پناہ کے مستحق نہیں ہیں، انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
جرمنی سے واپس آسٹریا بھیجے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ
آسٹرین پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمنی سے آسٹریا واپس بھیجنے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں حال ہی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ پولیس ترجمان ڈیوڈ فُرٹنر کے مطابق، ’’روزانہ بنیادوں پر جرمنی سے واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کی تعداد دسمبر کے مہینے میں ساٹھ تھی جو اب بڑھ کر دو سو تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
ترجمان کے مطابق واپس بھیجے جانے والے پناہ کے متلاشی زیادہ تر غیر ملکیوں کا تعلق افغانستان، مراکش اور الجزائر جیسے ملکوں سے ہے اور یہ تارکین وطن جرمنی کی بجائے دیگر ممالک میں پناہ کی درخواستیں دینا چاہتے تھے۔
ڈیوڈ فُرٹنر نے یہ بھی کہا کہ روزانہ آسٹریا سے گزر کر جرمنی کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد اب بھی ایک ہزار اور دو ہزار کے درمیان رہتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جرمنی سے واپس بھیج دیے جانے والے تارکین وطن دوسرے راستوں سے دوبارہ جرمنی داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔