1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معاونت کے ساتھ خود کُشی کے رجحان میں ناقابل یقین اضافہ

کشور مصطفیٰ21 اگست 2014

گزشتہ چار برسوں میں سوئٹزرلینڈ جاکر معاونت کے ساتھ خود کُشی کرنے والے افراد کی تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔ جرنل آف میڈیکل ایتھکس میں شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cyr9
تصویر: picture-alliance/dpa

2012 ء میں سوئٹزرلینڈ میں اپنی جان خود لے لینے کے 172 واقعات رونما ہوئے تھے، اس کے مقابلے میں 2009 ء میں اس کی تعداد محض 86 تھی۔ سوئٹزرلینڈ وہ یورپی ملک ہے جہاں سہل مرگی یا آرام کی موت سے متعلق قوانین بہت نرم ہیں۔ وہاں جا کر اپنی موت کے کٹھن مرحلے کو آسان بنانے اور تعاون کے ساتھ خود کُشی کرنے والے غیر ملکیوں کی کُل تعداد کا دو تہائی جرمنی اور برطانیہ کے شہریوں پر مشتمل ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں 1940ء میں تعاون کے ساتھ خود کُشی کے فعل کی قانونی طور پر منظوری دے دی گئی تھی۔ اس عمل میں تاہم ایسے شخص کی معاونت جائز قرار دی جاتی ہے جس کی اس موت سے براہ راست کوئی دلچسپی وابستہ نہ ہو۔

’ مرسی کیلنگ‘ یا رحمانہ قتل یورپ کے دیگر ممالک جیسے کہ ہالینڈ، لکسمبرگ اور بلجیم کے علاوہ امریکا کی چند ریاستوں میں قانونی طور پر جائز ہے تاہم بہت سے ممالک میں قانونی طور پر اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے ممالک یا معاشروں میں زندگی سے بیزار افراد کو باہر جانے کی ترغیب دلائی جاتی ہے جہاں وہ اپنے چاہنے والوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں کے خوف یا اس خوف بے نیاز ہو کر کہ اُن کے ڈاکٹر پر مقدمہ دائر ہو سکتا ہے، اپنی زندگی ختم کر سکتے ہیں۔

Sterbehilfe Klaus Arens
یورپی ممالک میں ’ مرسی کیلنگ‘ یا رحمانہ قتل کا رجحان زیادہ ہےتصویر: DW/S. Dege

برطانیہ اور فرانس کی عدالتوں سمیت یورپ کی ہیومن رائٹس کی عدالت میں گزشتہ چند مہینوں سے یہ حساس موضوع زیر غور ہے۔

تعاون کے ساتھ خود کُشی کرنے والے مریضوں کے بارے میں اس حالیہ مطالعاتی جائزے میں جن افراد کو شامل کیا گیا تھا ان میں سے قریب نصف اعصابی عارضوں کے شکار، فالج کے مریض، موٹر نیورون سے متعلق بیماریوں میں مبتلا افراد، پارکنسن اور سکلیروسز یا نسیج یا بافتوں کی سختی سے پیدا ہونے والے مرض کے شکار افراد تھے۔

دریں اثناء سوئٹزرلینڈ میں بھی تعاون حاصل کر کہ خود کُشی کے کیسز کی تعداد پر گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔ 2011 ء میں زیورخ کے ضلعوں میں اس بارے میں ہونے والی رائے شماری میں شامل ووٹروں نے تعاون کے حصول سے خود کُشی کے بارے پر مجوزہ پابندی کو رد کر دیا تھا۔ ایک سال بعد قومی پارلیمان نے اس رجحان، جسے ’ خود کُشی کی سیاحت‘ بھی کہا جاتا ہے، پر کنٹرول سخت کرنے کے خلاف فیصلہ دے دیا۔

Sterbehilfe Klaus Arens
سوئٹزرلینڈ میں بھی تعاون حاصل کرکہ خود کُشی کے موضوع پر بحث چھڑ گئی ہےتصویر: DW/S. Dege

2008 ء سے 2011 ء کے درمیان سوئٹزرلینڈ جاکر خود کُشی کے لیے تعاون حاصل کرنے والے 611 افراد کا تعلق دنیا کے مختلف 31 ممالک سے تھا اور ان کی اوسط عمر 69 برس بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے قریب نصف جرمنی سے آئے تھے جبکہ 20 فیصد کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ اس فہرست میں ٹاپ 10 ممالک میں فرانس اور اٹلی شامل ہیں۔ ان دونوں ممالک میں اس طرح کی خود کُشی کرنے والوں کی تعداد میں ناقابل یقین اضافہ ہوا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید