معمر نن کے ساتھ جنسی زیادتی، ہزاروں افراد کا مظاہرہ
16 مارچ 2015ایک معمر نن کو ایک اسکول میں جنسی زیادتی بنانے کے واقعے نے بھارت میں ایسے بھیانک واقعات پر ایک مرتبہ پھر توجہ مرکوز کرا دی ہے، جہاں خواتین کے خلاف تشدد اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات انتہائی بلند سطح پر ہیں۔ کولکتہ کے آرچ بشپ تھومس ڈی سوزا نے شہر بھر کے مسیحیوں نے اپیل کی تھی کہ وہ اس احتجاجی ریلی میں شرکت کریں۔ ان کا کہنا تھا، ’ہمیں امید ہے کہ تین سے چار ہزار افراد اس ریلی میں شریک ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ متاثرہ خاتون سے اظہار یکجہتی کے لیے عام افراد بھی اس ریلی میں شامل ہوں گے۔‘
آرچ بشپ نے اصرار کیا کہ اس ریلی کا مقصد کسی سیاسی جماعت کے خلاف محاذ آرائی نہیں۔ خیال رہے کہ بھارت میں مسیحی برادری اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں حالیہ کچھ عرصے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس سے قبل مسیحی رہنما ان حملوں کی ذمہ داری انتہاپسند ہندوؤں پر عائد کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس عام انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد ایسے انتہاپسند عناصر کو شہہ ملی ہے۔
ڈی سوزا نے بتایا کہ پیر کی شام متاثرہ خاتون کے ساتھ اظہار یکجتی کے لیے شمعیں بھی روشن کی جائیں گے۔
خیال رہے کہ قانونی وجوہات کی بنا پر اس نن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم جمعے کی شام اسے کولکتہ شہر سے 70 کلومیٹر دور واقع راناگھاٹ کے علاقے میں قائم ایک مسیحی اسکول میں متعدد افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسکول میں موجود نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء لوٹ کر لے گئے۔ اس واقعے کے بعد اس خاتون کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کا آپریشن ہوا اور یہ خاتون ابھی تک راناگھاٹ کے اسی ہسپتال میں داخل ہے۔
پولیس نے اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں آٹھ افراد سے پوچھ گچھ کے لیے روک رکھا ہے، تاہم ابھی تک کسی شخص کو باقاعدہ طور پر حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اس اسکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں میں حملہ آوروں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔
بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد اور اُن پر جنسی حملوں کے حوالے سے موجودہ بحث اس وقت سے جاری ہے، جب دسمبر 2012ء میں ایک نوجوان لڑکی کو نئی دہلی میں ایک بس میں اجتماعی جنسی زیادتی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ لڑکی بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان کی بازی ہار گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد بھارت بھر میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے تھے، جن میں حکومت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ ایسے جرائم کے خاتمے کے لیے سخت قانون سازی کرے۔