معیاری شہد اور شہد کی مکھیاں : تازہ تحقیق
19 اپریل 2009سائنس کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ کیڑے مکوڑے ہریالی کی افزائش کے علاوہ فصلوں اور پھلوں کی زیادہ پیداوارکے لئے اہم ہیں۔
پودوں اور درختوں کی افزائش اور فصلوں کی زیادہ پیداوار میں یہ انتہائی اہمیت والے کیڑے اگر ناپید ہو گئے تو پھر عالمی اقتصادیات پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہےجن کی مالیت کا اندازہ ابتدائی طور پر تین سو دس ارب یورو تک لگایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں جرمنی کے ماحولیاتی تحقیق کے ادارے ہیلم ہولس سینٹر نے فرانسیسی محققین کے ساتھ مل کر نئے تحقیقی اندازے لگائے ہیں۔ ممکنہ عالمی اقتصادی نقصان کے ساتھ ساتھ بناتاتی دنیا پر بھی بے انتہا اثرات مرتب ہونے سے یہ پودے ناپید بھی ہو سکتے ہیں۔ کیمیاوی کھاد کے مسلسل استعمال سے شہد کی مکھیوں کے مرنے کا عمل شروع ہے۔
جرمنی میں شہد کی مکھیاں پالنے والوں کی تعداد بھی محدود ہونے لگی ہے۔ اس کی وجوہات بہت متنوع ہیں۔ ان میں شہد کی مکھیوں کی حفاظت سے لے کر بازاروں میں کئی اور ملکوں سے درآمدہ کردہ شہد کی دستیابی شامل ہے۔
یہ ریکارڈ پر ہے کہ پچاس سال قبل جرمنی کے کچھ علاقوں میں ایک مربع کلومیٹر رقبے پر شہد کی مکھیوں کے چھ سے سات ڈیرے دیکھنے میں آتے تھے۔ اب یہ تعداد کم ہوتے ہوتے صرف تین تک پہنچ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی میں شہد کی مکھییاں پالنا ایک منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ اِس کاروبار سے منسلک پچانوے فی صد ایسے افراد شوقیہ مکھیاں پال رہے ہیں۔
مشاعیل ہارٹ (Michael Hardt ) ایسے ہی ایک شوقیہ مکھیاں پالنے والے جرمن شہری ہیں۔ وہ مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ میں رہتے ہیں۔ اُن کا پیشہ شہد کی مکھیوں کو شوقیہ بنیادوں پر پالنےوالوں کی مشاورت ہے۔ اپنے گھر میں ناشتے والے ٹیرس سے ملحق باغ میں بغیر کسی خوف کے کھڑے ہو کر اُن کا کہنا ہے کہ میرے کان میں بولنے والی یہ ایک شہد کی مکھی ہے۔ لیکن یہ کاٹنے والی نہیں ہے، اگر اِس کے کاٹنے کے خوف کو پرے رکھ کر میں اِس کو بیٹھنے دوں تو یہ کچھ دیر دھوپ میں آرام کے بعد اُڑ جائے گی۔
جرمنی میں پائی جانے والی شہد کی مکھیاں بمقابلہ افریقی مکھیوں سے زیادہ جارح ہیں۔ یہ کسی بھی بلند و بالا عمارت کے اندر اپنا ٹھکانہ بنا سکتی ہے۔ لیکن جرمن اِن کو کیڑا سمجھ کر ان سے خوف کھاتے ہیں۔
مشاعیل ہارٹ کا مزید کہنا ہے کہ شروع شروع میں لوگ مجھ سے خوفزدہ ہوتے تھے، میں نے دیکھا کہ جب میں کسی باغ یا سکول کی کلاس میں جا تا تو ٹیچر یا لوگ کہتے کہ آپ شہد کی مکھیوں کے ڈبے کو یہاں نہ کھولیں۔ حتیٰ کہ یہ سب لوگ بڑے ادب سے دس میٹر دور جا کر کھڑے ہو جاتے۔
یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ لوگوں کا چرند پرند کے بارے میں علم بہت محدود ہوتا ہے۔ اِس مناسبت سے شوقیہ جانور پالنے والے ،دوسرے افراد کے رویوں پر شاکی رہتے ہیں۔ جرمن زرعی معاشرے کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں میں کچھ عرصہ قبل تک کسان، اور جانوروں کے پالنے کے علاوہ مگس بانی کا شوق رکھتے تھے مگر اب ایسے کسان خال خال دکھائی دیتے ہیں۔
مشرقی جرمن شہر لائپزگ کے بیرنٹ لیہمن (Bernd Lehmann) نے اپنی شہد کی مکھیوں کو چار سو پچاس ہیکٹر پرپھیلے پھلوں کے باغ میں پال رکھا ہے۔ اُن کے باغ میں سیب اگائے جاتے ہیں جن کی سالانہ فصل قریب سینتیس ہزار ٹن ہوتی ہے۔ بیرنٹ لیہمن کے خیال میں شہد کی مکھیوں کے بغیر اتنی بڑی مقدار میں سیبوں کا حصول ممکن نہیں۔
بیرنٹ لیہمن اپنی دشواریوں کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی کوشش یہی رہتی ہے کہ وہ جنگلی شہد کی مکھیوں کو دور رکھیں مگر یہ ممکن نہیں ہے۔ اِس لیئے وہ اپنی شہد کی مکھیوں پر خاص توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ باغ کے اندر نر اور مادہ پودوں کے اِتصال کے لئے شہد کی مکھی، جنگلی مکھیوں اور بھونروں سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔ یہ اقتصادی لحاظ سے بھی مؤثر ہوتا ہے کیونکہ اِس سے پیدا وار میں استحکام رہتا ہے۔
بازار میں شہد کی عمدہ اقسام کی جگہ سستے شہد کی کھپت زیادہ ہے۔ اِس وجہ سے اب جرمنی میں شہد کوئی منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ مارکیٹ میں بکنا والا زیادہ تر شہد جنوبی امریکہ، ایشیاء یا جنوب مشرقی یورپ سے لایا جاتا ہے۔ مختلف الاقسام شہد کی دستیابی کے بعد مقامی طور پر تیار کردہ جرمن شہد کو سستے داموں بیچنا محال ہو گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شہد کی مکھیوں کی جرمن قسم کو خاصی زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کا سب سے بڑا دشمن ایک پیراسائٹ ، واروا مائٹس ہے، جو شہد کی مکھی کے جسم کے ساتھ پیوست ہو کر مسلسل اُس کا خون چوستا ہے۔ اِس عمل سے شہد کی مکھی سست ہو کر پہلے کمزور اور پھر مرجاتی ہے۔ یہ پیراسائٹ اپنی افزائش بھی شہد کی مکھی کے خون میں ہی کرتا ہے۔ جرمنی میں شہد کی مکھیوں کے شوقین سال میں دو بار اِس جراثیم کے خلاف مدافعتی ویکسین استعمال کرتے ہیں۔
کئی اور ملکوں میں شہد کی مکھیاں پالنے والے مختلف پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں۔ مثلاً برازیل میں وار روا مائٹس میں مبتلا مکھیوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔ اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اب وہاں کی مکھیوں نے جیسے "زندہ رہنے کا حق، سب سے طاقتور کے لئے" جیسا محاورے سیکھ لیا ہے اور اس پیراسائٹ کے خلاف جنگ کرنے لگی ہیں۔ اقوام کی مشترکہ کوششوں سے ہی کیڑوں سے پودوں کے اتصال کا عمل دوام پا سکتا ہے اور اِسی کے باعث فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔