مغربی ایتھوپیا میں 100 سے زائد افراد قتل
24 دسمبر 2020نامعلوم بندوق برداروں نے مغربی ایتھوپیا کے بولین صوبے میں بیکوجی گاوں پر حملہ کر کے 100 سے زائد لوگوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اس علاقے میں گوموز سمیت متعدد نسلی گروپ آباد ہیں۔
یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا، جب صرف ایک دن قبل ہی وزیر اعظم آبی احمد، ان کی فوج کے سربراہ اور دیگر اعلی وفاقی عہدیداروں نے، حالیہ دنوں میں پیش آنے والے ایسے ہی دیگر ہلاکت خیز واقعات کے بعد پیدا شدہ کشیدگی کو دور کرنے کی امید میں، اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔
سن 2018 میں آبی احمد کے اقتدار سنبھالنے اور ملک میں متعدد جمہوری اصلاحات کے عمل میں تیزی لانے کے بعد سے ہی افریقہ کا یہ دوسرا سب سے بڑی آبادی والا ملک کشیدگی اور ہلاکت خیز پرتشدد واقعات سے مسلسل دوچار ہے۔ بعض اصلاحات کی وجہ سے علاقائی حریفوں پر ریاست کی آہنی گرفت کمزور ہوئی ہے۔
ایتھوپیا میں اگلے برس انتخابات ہونے والے ہیں جس کی وجہ سے زمین، اقتدار اور وسائل پر اپنی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں کے سبب کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ نسلی کشیدگی وزیر اعظم آبی احمد کے لیے ایک بڑاچیلنج ہیں، جو 80 سے زائد مختلف نسلی گروپوں والے اس ملک میں اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک کھیت میں 80 سے زائد لاشیں
مغربی قصبے بولین کے ایک کسان بیلے وزیرا نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز ہونے والے حملے کے بعد اپنے گھر کے قریب واقع ایک کھیت میں کم از کم 82 لاشیں دیکھی تھیں۔
انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ گولیاں چلنے کی آوازوں سے ان کی اور ان کے گھر والوں کی نیند سے آنکھیں کھلیں اور وہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دوران لوگ چلا رہے تھے 'انہیں پکڑو، انہیں پکڑو‘۔ اس حملے میں ان کی بیوی اور پانچ بچے گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی کمر میں بھی گولی لگی ہے جب کہ ان کے چار بچے ابھی تک لاپتہ ہیں۔
اسی قصبے کے ایک اور رہائشی حسن یمامہ نے بتایا کہ مسلح افراد نے مقامی وقت کے مطابق تقریبا ً صبح چھ بجے حملہ کر دیا۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر کے نزدیک 20 لاشیں دیکھی ہیں۔
حسن یمامہ نے بتایا کہ حملہ آوروں کی فائرنگ میں ان کے پیٹ میں گولی لگی ہے۔ حملہ آوروں نے فصلیں اور گھروں کو بھی آگ لگا دی۔
جائے واردات سے تقریباً 90 کلومیٹر دور بولین میں مقامی طبی عملہ ان 38 دیگر افراد کا علاج کررہا ہے، جنہیں یا تو گولیاں لگی ہیں یا پھر وہ چاقو یا تیروں سے کیے گئے حملے سے زخمی ہوئے ہیں۔
ہسپتال میں زیر علاج مریضوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے رشتہ داروں کو چاقو گھونپ کرمار ڈالا گیا اور جب کسی نے فرار ہونے کی کوشش کی تو اسے گولی مار دی گئی۔
ایک نرس نے روئٹرز کو بتایا، ”اتنے زیادہ زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے ہمارے پاس تیاری نہیں تھی اور دوائیں ختم ہو گئی ہیں۔" انہوں نے مزید بتایا کہ ایک ہسپتال میں منتقل کرنے کے دوران ایک پانچ سالہ بچے کی موت ہوگئی۔
ملک کے دیگر حصوں میں بھی نسلی تصادم
حکومتی فوج کو ملک کے دیگر حصوں میں بھی جاری اسی طرح کے نسلی تصادم سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ شمالی تیگرائی علاقے میں باغیوں اور حکومت کے درمیان جاری تصادم کی وجہ سے ساڑھے نو لاکھ سے زائد افراد کو ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔
ایک دیگر علاقے اورومیا میں بھی بغاوت کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف ایتھوپیا کو صومالیہ سے ملحق اپنی مشرقی سرحد پر صومالی اسلام پسند جنگجووں سے بھی ایک عرصے سے خطرہ لاحق ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)