مغربی دنیا روس سے خوفزدہ نہ ہو، پوٹن
6 جون 2015روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے آج ہفتہ چھ جون کے روز شائع ہونے والے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں کہا، ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اپنے دورہ اٹلی سے قبل اطالوی اخبار Corriere della Sera سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کے ساتھ تنازعے کی خبروں کو بھی مسترد کر دیا۔
صدر پوٹن نے کہا، ’’دنیا بہت زیادہ بدل چکی ہے اور آج کے لوگ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ بہت بڑے پیمانے پر کوئی عسکری تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔‘‘
روسی صدر نے مزید کہا، ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے پاس (جنگ کے علاوہ) کرنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ صرف کوئی بیمار ذہنیت کا حامل شخص اپنے خوابوں میں ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ روس اچانک نیٹو رکن ممالک پر حملہ کر دے گا۔‘‘
انہوں نے ماسکو کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے البتہ کہا کہ روس بیرونی خطرات سے نمٹنے کی کوشش میں ہے۔ پوٹن کا کہنا تھا کہ نیٹو رکن ممالک کا فوجی بجٹ روس کے دفاعی بجٹ سے دس گنا زیادہ ہے جبکہ اس مد میں دنیا میں سب سے زیادہ رقوم خرچ کرنے والا ملک امریکا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ روس کی طرف سے گزشتہ برس کریمیا کو اپنا حصہ بنا لینے کے بعد سے ہی بالٹک اور شمالی یورپ کے ممالک کہہ رہے ہیں کہ ان کے سرحدی علاقوں میں روسی فوج کی تعیناتی غیر معمولی ہو چکی ہے۔ امریکا میں پینٹاگون کے حکام نے ابھی جمعہ پانچ جون کے روز ہی کہا تھا کہ ممکنہ خطرات کے تناظر میں یورپ میں سکیورٹی بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
مشرقی یوکرائن کے تنازعے پر تبصرہ کرتے ہوئے روسی صدر نے کییف حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ رواں برس فروری میں منسک میں طے پانے والے فائربندی معاہدے پر عملدرآمد پر رضا مند نظر نہیں آتی۔ ولادیمیر پوٹن کے مطابق مغربی ممالک کے حمایت یافتہ منسک امن معاہدے کے تحت یوکرائنی حکام کو اپنے ملک کے شورش زدہ خطے کے باغیوں کے ساتھ مکالمت کا آغاز کرنا چاہیے۔
پوٹن کے بقول، ’’مسئلہ یہ ہے کہ یوکرائن میں موجودہ انتظامیہ کے نمائندے (باغیوں کے ساتھ) مذاکرات کرنے پر تیار ہی نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ انہوں نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ اس سابقہ سوویت جمہوریہ میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور امن مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی کوشش کریں۔
روسی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مشرقی یوکرائن میں سرگرم روس نواز باغی منسک معاہدے کے مطابق یوکرائن ہی کا حصہ رہنے پر غور کرنے پر تیار ہیں اور امن مذاکرات کے آغاز کے لیے اس ابتدائی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔