1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغرب ایران روس دوستانہ تعلقات میں رکاوٹ نہ بنے: احمدی نژاد

18 نومبر 2010

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ان کا ملک اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرات کے لئے ہمیشہ تیار رہا ہے تاہم مغربی طاقتیں ایران کو پابندیوں کے ذریعے دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/QCU1
آذریائیجان کا دارالحکومت باکوتصویر: DW

ایرانی صدر نے یہ بیان آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ احمدی نژاد اور ان کے روسی ہم منصب دیمتری میدویدیف بحیرہ کیسپئین کے ساحلوں پر واقع پانچ ریاستوں کے سربراہان کی آج جمعرات کو باکو میں شروع ہونے والی کانفرنس میں حصہ لے رہے ہیں۔ آج سہ پہر ان دونوں صدور کے مابین دو طرفہ بات چیت عمل میں لائی گئی۔ اس ملاقات کو پہلے ہی مبصرین غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دے چکے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ احمدی نژاد اور میدویدیف ایران اور روس کے مابین تعلقات میں گہری کشیدگی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

Mahmoud Ahmadinedschad Rede in Hamedan
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد حمدان میں ایک خطاب کرتے ہوئےتصویر: Irna

ان دونوں روایتی حلیفوں کے مابین تناؤ میں اضافہ گزشتہ ستمبر سے ہوا جب روس نے ایران کو S300 طرز کے جدید میزائلوں سمیت دیگر اہم اسلحہ جات کی فراہمی کا منصوبہ سرکاری طور پر روک دیا تھا۔ اس پر ایران نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس نے ایسا امریکہ کے ورغلانے پر کیا ہے۔

آج باکو میں پریس کانفرنس کے دوران احمدی نژاد نے کہا کہ اگر مغربی طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ایران کو زیر دباؤ لا کر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گی تو یہ اُن کی بھول ہے۔ اگر پابندیوں کا مقصد ایرانی عوام کے اتحاد کو توڑنا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ تہران اور دنیا کی اہم ترین طاقتوں کے مابین اُس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں مذاکرات پانچ دسمبر کو ہوں گے۔ تاہم فریقین کے مابین اب تک جگہ اور ایجنڈا پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔ ایران کو ان مذاکرات میں مغرب کے اُن خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے جن کے مطابق تہران سول مقاصد کے بہانے یورینیم کی افزودگی کا کام جوہری ہتھیار سازی کے لئے جاری رکھے ہوئے ہے۔

Kaspisches Meer, Iran, Kaspien, Caspien BP Logo
بحیرہ کیسپئین پر قائم ریاستیں

دریں اثناء باکو میں ہونے والے اس اجلاس میں موجود روسی وفد کی طرف سے کہا گیا ہے کہ روسی صدر کو احمدی نژاد کے ساتھ آج کی اس ملاقات کی اہمیت اور حساسیت کا اندازہ ہے اس لئے وہ ایران کے جوہری پروگرام کے تنازعہ کے حل کے لئے آخری لمحوں تک مذاکرات پر زور دیں گے۔ روسی ذرائع کے مطابق کریملن کی طرف سے ایران کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تاہم ایرانی صدر نے باکو میں اپنے موقف میں کسی قسم کی لچک کے اظہار کے بجائے کہا ہے کہ ایران روسی میزائیلوں اور دیگر اسلحہ جات کے بغیر بھی اپنی دفاعی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ان کا ملک S300 طرز کے میزائیلوں سے ملتا جلتا نظام تیار کر چکا ہے۔

اُدھر میدویدیف کے ایک اعلیٰ خارجہ پالیسی اہلکار سیرگی پریخودکو نے ایک بیان میں کہا ’ ہمیں یقین ہے کہ پابندیوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی ایسی نئی صورت نکلے گی جو روس اور ایران کے مابین مسلسل تعاون اور مکالمت کو جاری رکھنے میں مدد دے گی۔ ایران پر پابندیوں کا دائرہ روس اور اس کے تعلقات کے تمام پہلوؤں کو متاثر نہیں کرتا‘۔ سیرگی پریخودکو نے یقین دلایا ہے کہ ایران اور روس کے مابین تعاون اور اشتراک عمل کا ایک خاص حصہ مغرب کی طرف سے تہران پر عائد کردہ پابندیوں سے ماورا ہے اور رہے گا۔

NO FLASH Neues Atomkraftwerk Buschehr im Iran
بوشہر میں قائم ایران کی جوہری تنصیبتصویر: picture alliance / dpa

بحیرہ کیسپئین کی ریاستوں کے سربراہوں کا یہ اجلاس تیسری بار منعقد ہو رہا ہے۔ اس میں آذر بائیجان کے علاوہ دو دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں قزاقستان اور ترکمانستان کے لیڈران بھی حصہ لے رہی ہیں۔ اس اجلاس میں ماضی میں بھی جو مسئلہ زیر بحث اور ہنوز حل طلب رہا ہے وہ ہے بحیرہ کیسپئین کی تفسیم کا ہے۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس علاقے کو پانچ برابر حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ جبکہ آذر بائیجان چاہتا ہے کہ بحیرہ کیسپئین پر واقع تمام ریاستوں کے ساحلی حصے تک اُسے رسائی حاصل ہو۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عابد حُسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں