مقبوضہ علاقوں میں پسپائی مگر اسلامک اسٹیٹ کے حملوں میں اضافہ
21 اگست 2017امریکا کی میری لینڈ یونیورسٹی کی ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام اور عراق میں عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو مختلف فوجی آپریشن میں شدید ہزیمت کا سامنا ہے لیکن دوسری جانب اس کے ہمدرد اور کارکن مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ تواتر سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یورپ میں کیے جانے والے تقریباً تمام حملوں کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عراقی فوج کی تَل عَفر پر چڑھائی
لبنان نے داعش کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا
اسپین: دہشت گردانہ حملے کے متاثرین میں درجنوں ممالک کے شہری
یورپ میں اسلامک اسٹیٹ کا منڈلاتا ہوا خطرہ
میری لینڈ کی یونیورسٹی کی ریسرچ میں بتایا گیا کہ سن 2016 میں اس تنظیم کو عراق اور شام میں پے در پے شکست کا سامنا شروع ہوا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم داعش کی بڑھتی قوت کو سن 2016 میں روک دیا گیا اور پھر زوال کا عمل شروع ہوا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مسلسل فضائی حملوں کے ساتھ روس اور ترکی کے فوجی حملوں نے بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی قوت کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فضائی حملوں میں اس تنظیم کے کئی اہم رہنما ہلاک کر دیے گئے اور اس کی صفوں میں اب رہنمائی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس جہادی تنظیم کی قوت میں کمی کا یہ بھی ایک اہم سبب ہے۔
امریکی یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 میں اسلامک اسٹیٹ نے مختلف ملکوں میں چودہ سو سے زائد دہشت گردانہ حملے کیے۔ ان حملوں میں سات ہزار سے زائد انسان ہلاک ہوئے۔ یہ حملے اور ہلاکتوں کی تعداد سن 2015 کے مقابلے میں بیس فیصد زائد تھی۔ سن 2016 کے اختتام پر اس کے حملوں اور ہلاکتوں میں دس فیصد کی کمی واقع ہو چکی تھی۔ اس کی ایک اہم وجہ عراق میں ملکی فوج کی اس کے مقبوضہ علاقوں میں مسلسل کامیاب پیش قدمی تھی۔
یونیورسٹی کی ریسرچ میں بھی بتایا گیا کہ اسلامک اسٹیٹ کے علاوہ دوسری جہادی تنظیموں کی دہشت گردانہ حملوں کی تعداد سن 2016 میں 950 سے زائد تھی اور ان میں ہلاک شدگان کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ میری لینڈ یونیورسٹی کی ریسرچ گزشتہ ہفتے جاری کی گئی تھی اور اس میں عالمی سطح پر جاری دہشت گردانہ کارروائیوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔