1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے منافع کمانے والی کمپنیوں کی فہرست

13 فروری 2020

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں میں 100 سے زائد کاروبای کمپنیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی سر زمین پر اسرائیلی قبضے کی حمایت کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3XhLD
Isarel Boykott
تصویر: Imago/UPI Photo/D. Hill

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے اس سلسلے میں جو فہرست جاری کی ہے اس میں 112 ایسی کمپنیوں کے نام شامل ہیں جو فلسطینی علاقے غرب اردن کے ان حصوں میں منافع کما رہی ہیں جہاں اسرائیل نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس میں سے بیشتر کمپنیوں کے دفاتر اسرائیل میں ہیں جس میں بینک، ٹیلی فون اور تعمیراتی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ ادارے کی فہرست میں سیاحت کے لیے معروف ویب سائٹس ایئر بی این بی، بکنگ ڈاٹ کام، ایکسپیڈیا اور ٹرپ ایڈوائزر، بنیادی ڈھانچے کے لیے معروف فرانسیسی کمپنی السٹوم، امریکا کی مواصلاتی کمپنی موٹرولا اور غذائی اشیاء کی معروف کمپنی جنرل مِلز جیسی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں شامل ہیں۔    

فلسطین کے غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی مانا جاتا ہے۔ سن 2016 میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس کونسل (ایچ آر سی)  ان کمپنیوں کی معلومات جمع کرنے کا کہا تھا جو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں آباد کرنے کی اعانت کر رہی ہیں یا پھر ان علاقوں میں ایسا کرنے میں وہ اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں۔ ایچ آر سی کے مطابق اس میں ان کمپنیوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جن کی سرگرمیوں سے انسانی حقوق کے پامال ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ اس میں بینکنگ کے ساتھ ساتھ بستیوں کی تعمیراتی کام میں سہولت فراہم کرنا، سکیورٹی فراہم کرنا اور منہدم کرنے کا ساز و سامان فراہم کرنے جیسی کارروائیاں شامل ہیں۔

ایچ آر سی کی خاتون ترجمان مشیل باشیلیٹ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا مطلب ان کمپنیوں کو نہ تو بلیک لسٹ کرنا ہے اور نہ ہی ان پر یہ الزام عائد کرنا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

Westjordanland | Israelische Siedlung Har Homa
اسرائیل نے غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بسیتاں آباد کی ہیں جو عالمی قوانین کی خلاف وری تصور کی جاتی ہیںتصویر: picture-alliance/newscom/D. Hill

تاہم اس طرح کی رپورٹ سے ان کمپنیوں کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری کو روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے ان کمپنیوں کو بائیکاٹ کے لیے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

ایچ آرسی نے واضح کیا ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ کمپنیاں مستقل طور پر اس فہرست میں شامل رہیں گی۔ اس کے بیان کے مطابق، ''جب اس بات کا یقین ہوجائےگا کہ کمپنی نے وہاں اپنا کام بند کر دیا ہے یا پھر وہ اب وہاں کسی کام میں ملوث نہیں ہے تو ایسی کمپنی کو اس فہرست سے ہٹا دیا جائے گا۔‘‘

ایئر بی این بی غرب اردن میں ہونے کا پہلے ہی اعتراف کر چکی ہے۔ کمپنی نے گزشتہ اپریل میں اپنی بکنگ سے ہونے والے فائدے کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ رقم انسانی حقوق کے لیے استعمال کی جا سکے۔

اسرائیل کی شدید تنقید

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ ایچ آر سی اسرائیل کا نام داغدار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا، ''یہ تنظیم انسانی حقوق پر کام کرنے کے بجائے اسرائیل کو بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہے۔‘‘

دوسری طرف فلسطین حکام نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔  فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اسے ''عالمی قوانین اور سفارتی کاوشوں کی جیت قرار دیا ہے۔‘‘

اس سے قبل اسرائیل نے ایچ آر سی پر الزام عائد کیا تھا کہ فلسطینوں نے سیاسی، ثقافتی اور معاشی سطح پر اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کی جو بی ڈی ایس نامی مہم شروع کر رکھی ہے، تنظیم اس میں اس کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ نیتن یاہو نے بیان میں کہا، ''جو بھی ہمارا بائیکاٹ کرے گا ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے۔‘‘

ص ز /  ا ب (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں