ملالہ ساڑھے پانچ سال بعد سوات میں
نوبل امن انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی برسوں بعد ہفتہ اکتیس مارچ کو واپس اپنے آبائی شہر سوات پہنچ گئیں، جہاں قریب چھ برس قبل پاکستانی طالبان نے ایک حملے میں انہیں زخمی کر دیا تھا۔
پانچ برس کا طویل انتظار
ملالہ یوسف زئی ہفتہ کے روز صبح ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی علاقے سوات پہنچیں۔ اس موقع پر اُن کے والد ضیاءالدین یوسفزئی،والدہ تورپیکئی، دونوں بھائی اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔
پرانا کمرہ اور پرانی یادیں
سن 2012 سے برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی ساڑھے پانچ سال بعد جب آبائی شہر میں واقع اپنے گھر پہنچیں تو آبدیدہ ہو گئیں۔ ملالہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق ملالہ کے والدین اور بھائی بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ ملالہ یوسف زئی نے کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں قیام بھی کیا۔
اسکول کا دورہ اور پرانی سہیلیوں سے ملاقات
سوات پہنچنے پر مقامی لوگوں نے ملالہ یوسف زئی کا پرتپاک استقبال کیا اور اُن کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اپنے آبائی گھر میں کچھ دیر قیام کے بعد ملالہ اپنے اسکول بھی گئیں، جہاں اپنی سہیلیوں سے ملاقات کی اور ان سے باتیں کیں۔ ملالہ کے دورے کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ میڈیا کو بھی دور رکھا گیا تھا۔
’واپس ضرور آؤں گی‘
ملالہ اپنے مختصر دورہ سوات کے دوران کیڈٹ کالج بھی گئیں، جہاں پر کالج کے پرنسپل اور دیگر اسٹاف نے ان کا بھر پور استقبال کیا۔ ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج میں طلباء سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سوات آنے کا پختہ ارادہ ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سوات آئیں گی، ’’اس وادی جیسی خوبصورت ترین وادی دنیا میں کہیں بھی نہیں، سوات آکر بہت خوشی محسوس کررہی ہوں‘‘۔
’اپنی ثقافت پر فخر ہے‘
ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج کی وزیٹر بک میں اپنے پیغام میں لکھا کہ ساڑھے پانچ سال بعد اپنے پہلے دورہ سوات کے موقع پر وہ بہت خوش ہیں، ’’ مجھے اپنی سرزمین اور یہاں کی ثقافت پر فخر ہے، کیڈٹ کالج بہت ہی خوبصورت ہے اور میں کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی انتہائی مشکور ہوں۔‘‘
’ملالہ کے منتظر تھے‘
لوگوں کی اکثریت ملالہ کی پاکستان آمد سے نہ صرف خوش ہے بلکہ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ خوش آمدید بھی کہہ رہی ہے۔ تاہم دوسری طرف کچھ حلقے ملالہ کے دورہ سوات کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ سماجی کارکن ڈاکٹر جواد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں ملالہ پر فخر ہے، ملالہ کی جدوجہد نے یہاں پر بچیوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔
ہمت نہیں ہاری
ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں سوات ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے ایک مسلح حملے کے دوران سر میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اس حملے کے چند روز بعد ہی انہیں علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
ہمت و بہادری کی مثال
پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو ہمت، بہادری اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس کا کئی دیگر شواہد کے علاوہ ایک ثبوت انہیں دیا جانے والا امن کا نوبل انعام بھی ہے۔