ملا عمر کی موت، ایک باب ختم ہوا: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
30 جولائی 2015اس موضوع پر اپنے تبصرے میں ڈوئچے ویلے کے فلوریان وائیگنڈ لکھتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملا عمر کی اب اعلان کردہ موت موجودہ افغانستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تاریخ کے ایک پورے باب کے خاتمے کا اعلان ہے۔ اسامہ بن لادن کے ساتھ ساتھ ملا عمر بھی بنیاد پرست جہادیوں کے لیے ایک مجسم مثال تھا۔ طالبان کے اس رہنما اور اس کے پیروکاروں کے خلاف جب مغربی دنیا نے ہندوکش کی اس ریاست میں جنگ کا آغاز کیا تو اس کی قیمت ہزاروں انسانی جانوں اور اربوں کی رقوم کے ساتھ چکانا پڑی۔ ملا عمر مغربی دنیا کے لیے ایک انتہائی مطلوب عسکریت رہنما اور افغان طالبان کے لیے بہت قابل احترام ’امیر المومنین‘ تھا، جس کی ہر بات مانی جاتی تھی، چاہے وہ کسی سال تک منظر عام پر نہ بھی آیا ہو۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے زوال کے بعد اسے کسی نے بھی منظر عام پر نہیں دیکھا تھا۔ ملا عمر کی طرف سے مبینہ طور پر جو آخری پیغام جاری کیا گیا تھا، وہ عید کے موقع پر جاری ہوا تھا اور صرف قریب دو ہفتے پرانا ہے۔ ملا عمر کی جو شبیہ عام لوگوں کے ذہنوں میں رہے گی، وہ ایک آنکھ سے محروم اور سیاہ داڑھی والے ایک ایسے طالبان لیڈر کی تصویر ہے جو کہا جاتا ہے کہ غالباﹰ 14 برس قبل اتاری گئی تھی۔ اس کے بعد طالبان کے اس رہنما کی طرف سے جو کچھ بھی کہا گیا، وہ ایسے بیانات تھے جو پاکستانی شہر کوئٹہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اس کے قریبی معتمدین کی طرف سے جاری کیے جاتے تھے۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا افغان طالبان اب کسی نئی اور مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ بات یقینی ہے کہ افغانستان میں اب اس طرح کی کوئی نئی حکومت تو قائم نہیں ہو گی، جیسی طالبان کی قیادت میں نوے کے عشرے میں اقتدار میں آئی تھی۔ آج اگر مثال کے طور پر کابل کی موجود حکومت کسی بھی ممکنہ وجہ سے اقتدار میں نہیں رہتی، تو بھی وہی طاقتیں ہی اقتدار میں نہیں آئیں گی، جو نوے کے عشرے میں اقتدار میں تھیں۔
اب طالبان ان کے اتحاد کی علامت قرار دی جانے والی شخصیت ملا عمر کی موت کے بعد کافی کمزور ہو چکے ہیں اور شام اور عراق میں وسیع تر علاقوں پر قبضے کی حامل عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ بھی افغانستان میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
ملا عمر کا انتقال جب بھی ہوا ہو، اس کی موت کا اعلان ایک نازک وقت پر ہوا ہے۔ جمعہ تیس جولائی کے روز افغانستان میں قیام امن کے لیے کابل حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا دوسرا باقاعدہ دور پاکستان میں ہونا تھا، جو اب افغان طالبان کے بیانات اور اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق مؤخر کر دیا گیا ہے۔ اسی دوران طالبان کی شوریٰ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس نے ملا عمر کے نائب ملا اختر منصور کو اپنا نیا رہنما منتخب کر لیا ہے۔
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کے مختلف دھڑے نئے رہنما ملا اختر منصور کی قیادت کو کس حد تک تسلیم کرتے ہیں، نئے رہنما کے فیصلوں پر کس حد تک عمل کیا جائے گا اور مستقبل قریب میں اگر طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات بحال ہوتے ہیں تو اس بات چیت کے نتائج کو کس حد تک عملی شکل دی جا سکے گی۔