’ملک بدری سے قبل فرار ہونے سے پہلے مہاجرین کو گرفتار کر لو‘
10 مئی 2017اطالوی وزارت داخلہ نے ملک بھر ميں علاقائی حکومتوں سے مطالبہ کيا ہے کہ حراستی مراکز ميں سولہ سو نئے بستر فراہم کيے جائيں۔ وزير داخلہ مارکو منيٹی کے بقول مہاجرين کو ملک بدری سے قبل حراستی مراکز ميں رکھنا ضروری ہے، بصورت ديگر وہ اپنی ملک بدری سے قبل فرار ہو سکتے ہيں۔ پرتشدد مظاہروں اور تارکين وطن کی شناخت ميں سامنے آنے والے انتظامی مسائل کے سبب اٹلی ميں گزشتہ چند برسوں کے دوران ايسے مراکز بند کر ديے گئے تھے۔
روم حکومت کے منصوبوں ميں دارالحکومت کے نواح ميں قائم پونٹے گيليريا نامی ايک مرکز کی بحالی بھی شامل ہے۔ يہ وہی مرکز ہے، جہاں مہاجرين نے احتجاجاً اپنے منہ سی ليے تھے۔ پھر 2015ء ميں وہاں زير حراست تارکين وطن نے اس مرکز کو تباہ بھی کر ڈالا تھا۔ واضح رہے کہ تازہ منصوبے کے تحت پونٹے گيليريا ميں مردوں کا حصہ دوبارہ کھولنے کی بات ہو رہی ہے کيونکہ اس مرکز کا عورتوں والا حصہ بند نہيں ہوا تھا۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر خبر رساں ادارے روئٹرز کے چند صحافيوں نے پونٹے گيليريا کا دورہ کيا اور متعدد زير حراست خواتين مہاجرين سے بات چيت کی۔ اس وقت اس مرکز ميں کُل تريسٹھ عورتيں موجود ہيں، جن کی دو تہائی تعداد اپنی سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کی تاحال منتظر ہیں۔ ستائيس عورتوں کا تعلق نائجيريا سے ہے اور ان ميں سے کئی جنسی مقاصد کے ليے انسانوں کی اسمگلنگ کا شکار بننے کے نتيجے ميں يورپ پہنچيں۔
اٹھائيس سالہ اسوکے ايڈيونور نے بتايا کہ وہ پانچ برس کے ليے جسم فروشی کے کام سے منسلک تھی تاہم دو برس قبل اپنا تمام تر قرضہ چکانے کے بعد اس نے يہ کام ترک کر ديا تھا۔ پھر اس نے ناپولی ميں ايک نئی زندگی شروع کی ليکن جنسی مقاصد کے ليے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے اسے روم لے آئے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ميں اب بدل چکی ہوں۔ اب ميں جسم فروشی نہيں کرتی۔‘‘ ايڈيونور کے بقول وہ واپس ناپولی جانا چاہتی ہیں اور صابن اور ديگر اشياء فروخت کر کے اپنا پيٹ پالنا چاہتی ہیں۔
بحرہ روم کے راستے مہاجرين کی بڑی تعداد ميں آمد کے سبب اطالوی حکومت دباؤ کا شکار ہے۔ گزشتہ برس 181,000 سے زائد مہاجرين اٹلی پہنچے تھے۔ نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق اس سال اب تک اس تعداد ميں چاليس فيصد کا اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔