مگر ان میں سے کسی ایک رول ماڈل کے نقش قدم پر پہلا قدم رکھنے کے لیے، جو کشٹ درکار ہے، اس کا ایک چوتھائی بوجھ بھی اٹھانے کا ہرگز موڈ نہیں۔ آپ کسی بھی متوسط یا اشرافی بزرگ سے پوچھ لیں کہ یہ ملک آخر کیسے سیدھا ہوگا؟ اکثر کا فوری جواب ہوتا ہے کہ بھائی جب تک آپ خمینی کی طرح پانچ ہزار لوگ نہیں لٹکائیں گے یہ ملک سدھرنے کا نہیں۔
جب بزرگوار سے پوچھا جائے کہ کیسا لگے اگر آپ بھی ان پانچ ہزار لوگوں میں لٹک رہے ہوں تو پھر وہ اکثر یہ بڑبڑاتے ہوئے نکل لیتے ہیں کہ بھائی آپ صحافی لوگ تو کج بحثی اور بال کی کھال اتارنے کے ماہر ہیں۔ آپ کے منہ کون لگے؟
گزشتہ برس طالبان کابل میں داخل ہوئے تو کئی جوشیلوں نے خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ ہے حقیقی آزادی۔ دیکھو امریکہ کو کیسے جوتے مار کے بھگا دیا۔ جب ان جوشیلوں سے کہا جائے کہ جو جو یہ مثالی نظام پاکستان میں نافذ کرنا چاہتا ہے ہاتھ کھڑا کرے۔ تب ان کا سارا جذبہ جھاگ کی طرح بیٹھنے لگتا ہے یا پھر وہ پینترا بدلنے میں ایک لمحہ دیر کیے بغیر کہتے ہیں کہ دیکھیے دونوں ملکوں کے معروضی حالات میں بہت فرق ہے۔
بہت سے پاکستانی چین میں بپا ہونے والے اس معجزے سے بہت متاثر ہیں کہ کس طرح پچھلے تیس برس میں چالیس کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔ اگر ایک ارب چالیس کروڑ آبادی والا چین یہ کرشمہ دکھا سکتا ہے تو ہم بائیس کروڑ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟
ہم تو چین سے بھی دو برس پہلے آزاد ہوئے تھے۔ ایسے دوستوں کو معجزہ تو یاد رہتا ہے مگر اس کا پس منظر یاد نہیں آتا۔ اچھا تو آپ چین بننا چاہتے ہیں؟ چہ خوب، چلیے مان لیتے ہیں کہ جس طرح ماؤ نے جدید چین کی بنیاد رکھی، اسی طرح جناح صاحب نے اس پاکستان کی بنیاد رکھی، جو روشن خیالوں اور صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام پاکستانی شہریوں کا مشترکہ اور مساوی ملک ہو۔
پھر کیا ہوا؟ چین کو تو ماؤزے تنگ کے بعد ڈینگ ژاؤ بینگ مل گیا، شی جن پنگ مل گیا، آپ کو کیا ملا؟ چینی ریاستی پالیسیوں سے آپ اختلاف کریں یا اتفاق۔ مگر یک جماعتی نظام نے چین کو کم از کم وہ ضروری تسلسل تو بخشا، جو چینی ماڈل بننے کے لیے ضروری تھا۔
رہنا آپ ویسٹ منسٹر جمہوری ماڈل میں چاہتے ہیں اور ترقی چین جیسی کرنا چاہتے ہیں۔ چلیے ویسٹ منسٹر ماڈل میں رہتے ہوئے کم ازکم ویسی چوتھائی ترقی ہی کر لیتے، جتنی انگلستان یا اب انڈیا نے کی ہے۔ نہ وہ ہو سکا نہ یہ کر پا رہے ہیں۔ کاش کوئی ایسا ترقی کا ماڈل ایجاد ہو جائے کہ سپنے دیکھتے دیکھتے قوم کی آنکھ اچانک کھلے تو خود کو ترقی کی چوٹی پر پائے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ہمارے نظریہ ساز بھارت کو فٹ پاتھی غربت کا استعارہ کہہ کر پاکستان کی مانگے کی ترقی سے بھارتی پسماندگی کا تقابل کرتے تھے۔ اب یہی نظریہ ساز سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر بھارت ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کیسے بن گیا اور ہم کہاں ہیں ؟
بیس برس پہلے تک وہ لوگ، جو بنگلہ دیش کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے کہتے تھے کہ بنگالیوں نے1971ء میں الگ ہو کر کتنی بڑی غلطی کی۔ آج یہی لوگ سوشل میڈیا پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی، خواندگی کے تناسب اور زر مبادلہ کے ذخائر کا موازنہ کرتے نہیں تھکتے۔
انہیں اب تک اپنے ہی سوال کا جواب نہ مل سکا کہ بنگلہ دیش کی عمر اکیاون برس اور ہماری عمر پچھتر برس ہونے کے باوجود پچھلے بیس برس میں ایسا کیا ہو گیا کہ اب ہم بنگلہ دیش اسپیڈ بھی اپنے لیے غنیمت سمجھنے لگے لگی ہیں (فی الحال تو شہباز اسپیڈ پر گزارہ ہے)۔
کچھ 'ڈرائنگ روم تبصراچی‘ آج بھی اسکینڈے نیویا کے سوشل ویلفئیر اسٹیٹ ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مگر بھول جاتے ہیں کہ وہاں ٹیکس دینے کے قابل سو فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور یہی ٹیکس حکومت عوام کو جدید سہولتوں کی صورت میں لوٹا دیتی ہے۔
ہمارے ہاں محض دس فیصد لوگ ٹیکس دینا پسند کرتے ہیں اور باقی نوے فیصد اسکینڈے نیویا کی فلاحی ریاست کے خواب پر گزر بسر کرتے ہیں۔ چنانچہ اب وہ سپنے دکھائے جا رہے ہیں کہ جن کا مثالیہ عصر حاضر میں کہیں نہیں یعنی ریاست مدینہ۔
یہ ماڈل وہ ریاست بھی اپنے ہاں لاگو نہیں کر پائی، جہاں اصل مدینہ ہے جبکہ دیگر لوگ پرانا پاکستان سنوارنے کے بجائے ایک اور نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں۔ کوئی سود سے پاک پاکستان بھی بنانا چاہ رہا ہے۔ گویا اس وقت مارکیٹ میں ہر طرح کا پاکستان دستیاب ہے۔نہیں ہے تو بس ایک نارمل پاکستان کا ماڈل نہیں ہے۔
پھر بھی اگر پاکستانی اپنے تمام ہمسائیہ ممالک کو بغور دیکھیں تو احساس ہو گا کہ اس گئے گزرے پاکستان میں بھی سیاسی گھٹن کسی بھی ہمسائے کے مقابلے میں کم ہے۔ اس پر بھی دھیان کی ضرورت ہے کہ جو شخص کراچی میں پونے دو کروڑ روپے کی فارچونر ڈرائیو کرتے ہوئے کیلے کا چھلکا باہر پھینک دیتا ہے یا پان کی پیک کسی بھی دیوار پر پھوار دیتا ہے، وہی شخص صرف پونے دو گھنٹے بعد دبئی میں لینڈ کرتے ہی تیر کی طرح الف اور قانون پسند شہری کیسے ہو جاتا ہے؟
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کرنا چاہیں تو پونے دو گھنٹے میں ہی خود کو سیدھا کر سکتے ہیں۔ مگر بھلا ہو برصغیری مسلمانوں کی نفسیات کے حازق نباض علامہ اقبال کا، جنہوں نے لکھا تھا،
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے،
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اگر اقبالیات ہی کے آئینے میں آج کے سیاسی پاکستان کو دیکھا جائے تو سوائے اس کے اور کیا دکھائی دے رہا ہے کہ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ!
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔