موئنجوڈارو کی قدیم باقیات اور انہیں لاحق ممکنہ خطرات
23 اکتوبر 2012موئنجوڈارو کے بارے میں ابھی حال ہی میں کراچی میں جرمن قونصل خانے اور گوئتھے انسٹیٹیوٹ نے مشترکہ طور پر ایک تصویری نمائش کا اہتمام بھی کیا۔ اس موقع پر موئنجوڈارو پر تحقیق کرنے والے اور وہاں کھدائی کر چکنے والے معروف جرمن ماہر آثار قدیمہ پروفیسر ڈاکٹر مائیکل ینزن نے ایک لیکچر بھی دیا۔
پروفیسر مائیکل ینزن گزشتہ چالیس سال سے موئنجوڈارو کے کھنڈرات پر تحقیق اور ان کے بچاﺅ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان تمام برسوں میں وہ پچھلے پچیس برس بھی شامل ہیں جب ان کو اقوام متحدہ کے ادارے Unescoکی طرف سے پاکستان میں اس شہرہِ آفاق 'مردہ شہر‘ کی کھدائی کی نگرانی کرنے کا موقع بھی ملا۔ اتنے عرصے میں اگر آپ کو اپنے کام سے محبت ہو تو اپنے موضوع سے عشق تو ہو ہی جاتا ہے۔ لہٰذا اب وہ موئنجوڈارو کا ذکر کرتے ہیں، تو واقعی ایسے کرتے ہیں جیسے کسی عزیز کے مر جانے کا ذکر کر رہے ہوں۔
یہ بات حقیقت بھی ہے۔ موئنجوڈارو اب شاید سچ مچ مر رہا ہے۔ اس کے کھنڈرات پانچ ہزار سال سے اس کی زندگی کا ثبوت رہے ہیں لیکن اب ایک طرف دریائے سندھ اور دوسری طرف دادو کنال نے ان آثارِ قدیمہ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں دونوں طرف پانی ہونے کی وجہ سے موئنجوڈارو کی زمین سیم زدہ ہوتی جا رہی ہے اور جو کنوئیں اس پانی کی سطح کو کم کرنے کے لیے کھودے گئے تھے، وہ قطعی ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔
حکومتِ سندھ کے قاسم علی قاسم کا کہنا ہے کہ حکومت ان آثارِ قدیمہ کو بچانے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے اور اب درخت لگا کر اس مرے ہوئے شہر کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ درخت ہی پانی چوس کر دونوں اطراف میں زیرِ زمیں سطح آب کو نیچا رکھیں۔
جب دو سال پہلے سندھ میں تاریخی سیلاب نے تباہی مچائی تو یہ شور بھی مچا کہ کہیں اس شہر کی بھی صرف یادیں ہی باقی نہ رہ جائیں۔ قاسم کا کہنا ہے کہ صورتحال اتنی بری نہیں تھی کہ انگریز کے زمانے کے بنے ہوئے بند نے دریا کو یہاں پہنچنے سے روکے رکھا تھا۔ یونیسکو کے قاضی ایاز مہیسر کہتے ہیں کہ حکومت کو اس سلسلے میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے، ورنہ واقعی باقیات ختم ہو جائیں گی اور صرف یادیں باقی رہ جائیں گی۔
انہیں یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے گزشتہ روز جرمن قونصلیٹ کراچی اور گوئتھے انسٹیٹیوٹ کراچی نے مل کر ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا، جس میں جہاں موئنجوڈارو کی تصاویر تھیں وہیں پر اس موضوع سے متعلق ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ اس کے علاوہ پروفیسر مائیکل ینزن نے اس موضوع پر ایک لیکچر بھی دیا۔
اس لیکچر میں جہاں یہ بات واضح کی گئی کہ بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں خاصی تشویش رکھتی ہے اور چوکس ہے کہ کہیں انسان سے اس کی اپنی تاریخ کی یہ اہم کڑی کھو نہ جائے۔ پروفیسر ینزن کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے گزشتہ کل کو بھول کر صرف آج میں الجھ گئے، تو آنے والا کل شاید آنے سے انکار کر دے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں