موت کے اندھیرے سے زندگی کی کرن
11 اگست 2010قدرت اپنے کرشمے طرح طرح سے دکھاتی ہے- جہاں سینکڑوں جانیں ضائع ہوتی ہیں وہاں نئی زندگیاں بھی دنیا میں آتی ہیں- پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے ایک چھوٹے سے گاؤں سناواں میں ایک معجزاتی منظر دیکھنے میں آیا- اس علاقے میں امدادی کام کرنے والے پاکستانی فوج کے ارکان میں شامل ایک ہیلی کاپٹر پائلٹ، کیپٹن منیم خان کے مطابق اس علاقے میں سیلاب کا پانی ان کے کندھوں تک اونچا ہے۔ وہاں سے لاشیں نکالتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے قریب ہی ایک چارپائی پر ایک سفید چادر سے ڈھکے ہوئے ایک انسانی جسم کی موجودگی میں ان کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہاتھ ہلا رہا ہے۔ منیم خان نے سمجھا کہ یہ شاید ایک اور لاش ہو گی۔ لیکن قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ چارپائی پر ایک زندہ عورت لیٹی ہے اور اُس کے ساتھ اُس کے نو زائیدہ جڑواں بچے بھی۔ کپتان منیم خان کی خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی- کھلے آسمان کے نیچے دو بیٹوں کو جنم دینے والی ماں زاہدہ پروین کو بچوں سمیت فوری طور پر قریبی ہسپتال پہنچا دیا گیا- پروین کے بقول اپنے دونوں بیٹوں کو دیکھ کر گرچہ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، تاہم وہی لمحات اُسے ایک نئی زندگی دے گئے- ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ماں اور دونوں بچے بالکل ٹھیک اور تندرست ہیں۔
جہاں سیلاب کے متاثرین کی لاشیں برآمد کرنے کا کام جاری ہے وہاں بچ جانے والوں کی زندگی اور صحت کی حفاظت اس وقت پاکستانی حکام سمیت امدادی کاموں میں مصروف ہر فرد کے لئے ایک بہت بڑا چیلنچ ہے- خاص طور سے خواتین کی زندگی اور صحت کو اس وقت بے حد خطرات لاحق ہیں تاہم ملک گیر سطح پر اس بارے میں کام جاری ہے-
پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کی روح رواں، Society of Obstetricians
and Gynaecologists of Pakistan کی سیکریٹری جنرل اور آغا خان میڈیکل ہسپتال کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر نگہت شاہ سے ہم نے رابطہ کیا اور پوچھا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے بعد کی بہت تکلیف دہ صورتحال میں خواتین کو صحت سے متعلق کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے تو ان کا کہنا تھا ’ یہ دو زندگیوں کی کہانی ہوتی ہے۔ حاملہ عورت ایک جان نہیں بلکہ ایک نئی روح کو دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ ایک ایسا انوکھا نظام ہے قدرت کا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ تاہم پاکستان میں بد قسمتی سے حاملہ عورتوں اور زچہ بچہ کی صحت پربنیادی طور پر ہی اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی دی جانی چاہئے۔ سیلاب کی ناگہانی آفت کے بعد سے تو مجموعی صورتحال اتنی زیادہ خراب ہے کہ اس وقت عورت، مرد، جوان، بوڑھے، ہر ایک زندگی کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لئے اس وقت خواتین کے صحت کے مسائل پر علیحدہ سے توجہ نہیں دی جا رہی‘۔ ڈاکٹر نگہت نے سیلاب زدگان کی مجموعی صورتحال اور ان کو درپیش صحت سے متعلق چند اہم مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اصل مشکلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ یہ اندازوں سے کہیں زیادہ سنگین ہوں گی۔ ایسے میں خواتین، خاص طور سے حاملہ عورتوں کو چاہئے کہ حکومت کی طرف سے بنائے گئے امدادی کیمپس سے نزدیک رہیں۔ پاکستان ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے متاثرہ علاقوں کے لئے طبی ٹیمیں، موبائل یونٹس کی صورت میں روانہ کی ہیں۔ تاہم تمام متاثرین تک پہنچنا نا ممکن ہے اس لئے امدادی کیمپس کی طرف رُخ کرنا ہی سیلاب زدگان کے لئے بہتر ہوگا۔ ڈاکٹر نگہت نے بتایا کہ طبی موبائل یونٹس میں ایک عورتوں کی ڈاکٹر اور ایک مڈ وائف شامل کی گئی ہے تاکہ خواتین کو ضروری طبی امداد فراہم کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ناگہانی آفت خواتین پر گہرے زہنی صدمے کا باعث بنتی ہے اس وجہ سے اکثر حاملہ عورتوں کو اسقاط حمل کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں طبی سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب اکثر مائیں بچہ جننے کے عمل کے دوران ہی فوت ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بچے کی پیدائش کے عمل کے دوران ہی اُس کی موت واقع ہو جانے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہو تے ہیں۔
ڈاکٹر نگہت شاہ کی تفصیلی گفتگو سننے کے لئے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ان کا خصوصی انٹر ویو سنئے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک