موجودہ مالیاتی بحران اور اسلامی بینکاری نظام
31 اکتوبر 2008موجودہ مالیاتی بحران اور اسلامی بینکنگ کے حوالے سے پیٹر فلپ کا تبصرہ:
سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے اپنے ملک کے معاشی طورپرکمزور خاندانوں کے لئے تقريبا پانچ ارب يورو کی مدد کااعلان کيا ہے۔ اسلامی ملکوں ميں اسلامی بنيادوں پرايک بنکاری يا مالياتی نظام موجود ہے۔ اسے کہيں بھی واحد لاگو نظام قرار نہيں ديا گيا ہے، ليکن خاص طور سے عوام ميں اس کی مقبوليت ميں اضافہ ہو رہا ہے اور اندازہ ہے کہ اسلامی بنکاری ميں ستائيس فيصد کا اضافہ ہوا ہے۔Michael Saleh Gassner اسلامی بنکاری نظام کے علمی شہرت يافتہ ماہر ہيں۔ کيايہ صرف ايک خيالی يا تصوراتی بات ہے کہ اسلامی بنکاری نظام کے ذريعہ مالياتی بحران سے بچا جا سکتا تھا۔ Gassner نے کہا : ’’ يہ بات بلکل تصوراتی نہيں ہے ۔ اسلام ميں سود منع ہے ۔ جرمنی اور امريکہ ميں رياستی اخراجات بھی قرضوں سے پورے کئے جاتے ہيں ۔ يہ قرضے ہر سال بڑھتے ہی ج رہے ہيں ۔ دوسری طرف اسلامی قانون ہے ، جس ميں سرمايہ لگانے والا منافع طلب کر سکتکہے ، کرايہ مانگ سکتا ہے ۔ ليکن يہ ديکھنا ضروری ہے کہ کس قسم کا کاروبار ہے ۔ اگر کوئ مکان خريدنا اہتا ہے تو اسے قسطوں پر مکان فروخت کيا جا سکتا ہے۔‘‘
مالياتی شعبے ميں صحيح طور سے ديکھنا ہی بہت ضروری ہے ۔ اگر اسلامی اصولوں پرعمل ہوتا تو امريکہ ميں رہن کے قرضوں اور جائيداد کے کاروبار ميں کوئی بحران ہی پيدا نہ ہوتا جس کی وجہ سے موجودہ مالياتی بحران پيدا ہوا ہے۔ اگر صحيح طرح سے جانچ کی جاتی تو پہلے ہی يہ معلوم ہو جاتا کہ بہت سے قرضداروں میں قرض واپس کرنے کی اہليت ہی نہيں تھی ۔
اسی طرح سے اسلام ميں سود قطعی منع ہے۔ اس کے علاوہ بھی اسلامی ضوابط سخت ہيں۔ سؤر کے گوشت کا کاروبارمنع ہے اور فحش فلمز، تصاوير وغيرہ بھی منع ہيں۔ جوا ممنوع ہے۔ جوئے سے مراد صرف کسینو اور جوئے خانوں ہی ميں کھيلا جانے والا جوا نہيں ہے، بلکہ وہ پيسےگھسيٹنے والا طرزعمل بھی ہے جو عالمی مالياتی منڈيوں ميں پايا جاتا ہے۔ وہاں معيشت کے بقيہ اصولوں پرعمل نہيں کيا گيا بلکہ اچانک ايسے مالی سودے گردش ميںتھے جن کی بناوٹ کے بارے ميں خود ان کو بھی صحيح طرح سے علم نہيں تھا جو ان کا کاروبار کررہے تھے ۔ Gassner نے کہا:’’ ہماری معيشت ميں اصولی طور سے انک طاقتور اخلاقی پہلو کا ہونا ضروری ہے ۔ چاہے ہم کوئ بھی نظام اختيار کريں ، ہميں پھر سے اخلاقی سوچ رکھنا ہو گی۔‘‘
Gassner کو يہ بھی معلوم ہے کہ اسلامی بنکاری، عرب دنيا ميں بھی معمول نہيں بلکہ وہاں بھی عام طورسے مغربی نظام ہی پرعمل ہوتا ہے، يعنی قرضے پرسود۔ ان ملکوں ميں ابھی بینکاری نظام اس قدرترقی يافتہ نہيں کہ وہ ايک اپنا اسلامی انداز اور تشخص اختيار کرسکے۔ عوام ميں مالی کاروبار کے سلسلے ميں قرآنی احکامات کا شعورموجود ہےاوربينکوں پردباؤہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق کاروبارکريں۔ بعض اسلامی ملکوں،خاص طورسے خليج کے ملکوں ميں اسلامی بينکنگ کا تناسب پچاس فيصد تک پہنچ چکا ہے۔
اسلامی اصولوں کے مطابق بنيک کا نظام کس طرح کا ہونا چاہئے، اس کا اندازہ ايک جرمن مثال سے ہوسکتا ہے۔ سن دوہزارچارميں صوبے زاکسن آنہالٹ نے ہا لينڈ ميں ايک اسلامی فاؤنڈيشن کی سرکاری عمارت کو فروخت کرنے کا فيصلہ کيا ۔ اسے عرب خريداروں کے ہاتھھ فروخت کيا گيا۔
سن انيس سو ستر کے عشرے ميں پہلے اسلامی بينک کھلنے کے بعد سے دنيا بھر ميں ايسے سينکڑوںبينک کھل چکے ہيں۔ مغربی ملکوں ميں بھی بينکوں نے اسلامک فائننننسنگ شروع کر دی ہے۔ اس کا مقصد اسلامی دنيا کے ساتھھ بہتر کاروبارکرنا اورخود مغربی ملکوں کے مسلمان شہريوں کو ايک ايسا بنکاری نظام پيش کرنا ہے جواُن کے لئے قابل قبول ہو۔ تاہم ان کی کاميابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسلامی دنيا کس قدر جلد اسلامی بينکنگ شروع کرتی ہے ۔
Gassner زيادہ پراميد نہيں ہيں: ’’ابھی يہ صاف طور سے واضح نہيں ہے کہ کيا يہ سب کچھھ اسلامی ہو جائے گا ۔ ا ميں نقننا بہت وقت لگے گا ۔ کيونکہ اسلامی ملکوں ميں بھی سب مسلمان اسلام پر عمل کرنے والے نہيں ہيں۔‘‘