مودی حکومت نے عشرت انکاوٴنٹر سے متعلق عدالتی رپورٹ مسترد کردی
9 ستمبر 2009دارالحکومت گاندھی نگر میں ایک پریس بریفنگ کے دوران گجرات حکومت کے ترجمان اور وزیر صحت جے نارائن ویاس نے عدالتی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے صاف طور پر انکار کیا۔’’ہم اس رپورٹ کو نہیں مانتے۔ اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں عدالتی تحقیقات کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔‘‘
معروف بھارتی تجزیہ نگار حسن کمال نے گجرات حکومت اور ریاستی پولیس کے موقف پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس طرح نریندر مودی اور ان کے حامیوں کو فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوگا۔’’میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر گجرات حکومت کو عدالتی رپورٹ مسترد کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، یہ تو چور کی داڑھی میں تنکا والا معاملہ ہے۔‘‘
حسن کمال مزید کہتے ہیں:’’اب رفتہ رفتہ نریندر مودی کے چاروں طرف گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ مودی کا تنازعات میں گھرے رہنے کے پیچھے ان کی سیاست کار فرما ہے۔ مودی نے گجرات کو ہندوتوو کی لیبارٹری بنایا تھا لیکن اب اس کی جڑیں ہل چکی ہیں، اس لئے سوائے منفی سیاست کے وہ کچھ اور نہیں کرتے۔‘‘
گجرات پولیس نے عشرت اور اس کے تین ساتھیوں کو لشکر طیبہ کے کارکن بتایا تھا۔ عدالتی تحقیقات کے مطابق انیس سالہ طالبہ عشرت جہاں اور اس کے دیگر تین ساتھی ایک فرضی مقابلے میں مارے گئے تھے۔
گجرات پولیس نے اس وقت اس انکاوٴنٹر کو اپنی زبردست کامیابی بتایا تھا۔ یاستی پولیس کے مطابق عشرت اور اس کے ساتھی ’’لشکر کے اس سیل کے رکن تھے جس نے ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔‘‘
پندرہ جون دو ہزار چار کو عشرت جہاں، اس کا دوست پرنیش پلے المعروف جاوید شیخ اور دو مبینہ پاکستانی شہری راج کمار رانا اور ذیشان جوہر گجرات پولیس کے ہاتھوں ’’ایک مقابلے‘‘ میں مارے گئے لیکن تب سے لے کر آج تک یہ انکاوٴنٹر متنازعہ رہا۔
ذیشان جوہر کے رشتہ داروں نے اس انکاوٴنٹر کو جعلی بتاکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جسٹس ایس پی تمانگ کی قیادت میں ایک عدالتی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں دو ہزار چار کے اس انکاوٴنٹر کو فرضی قرار دیا۔ تاہم گجرات حکومت اور ریاستی پولیس نے عدالتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عشرت اور اس کے ساتھیوں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: انعام حسن