مودی کا دورہ امريکا: گجرات فسادات سے متعلق مقدمہ دائر
27 ستمبر 2014نیو یارک سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق نريندر مودی اس وقت بطور حکومتی سربراہ امریکا کا جو پہلا دورہ کر رہے ہیں، اس دوران وہ آج ہفتے کے روز نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ بعد میں اپنے پانچ روزہ دورے کے دوران مودی واشنگٹن روانہ ہو جائیں گے، جہاں پير اور منگل کے روز وہ دو مرتبہ صدر اوباما سے ملیں گے۔
مودی کے اس دورے کو دونوں ممالک کے درميان تجارت کے فروغ اور باہمی تعلقات ميں بہتری کے ليے بہت اہم قرار ديا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں امريکا روانگی سے قبل مودی نے کہا تھا کہ ان کا يہ دورہ بھارت اور امريکا کے باہمی تعلقات ميں ايک نيا باب ثابت ہو گا۔
لیکن امریکا پہنچنے پر جو بات بھارتی وزیر اعظم کے لیے ایک ناخوشگوار تجربہ ثابت ہوئی، وہ یہ تھی کہ جمعرات 25 ستمبر کے روز ان کے خلاف نیو یارک ہی کی ایک وفاقی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر دیا گیا جس میں ان پر گجرات کے فسادات رکوانے میں ناکامی کی وجہ سے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ بارہ سال قبل جب بھارتی ریاست گجرات میں یہ فسادات ہوئے تھے، تب اس ریاست کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ہی تھے۔
بھارتی وزير اعظم مودی کے خلاف يہ مقدمہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوششیں کرنے والے گروپ ’امريکن جسٹس سينٹر‘ کے وکلاء کی طرف سے دائر کيا گيا ہے۔ بھارتی سربراہ حکومت کے خلاف عدالت میں جمع کرائی گئی اٹھائيس صفحات پر مشتمل دستاویز میں ان پر انسانيت کے خلاف جرائم، ماورائے عدالت قتل اور ذہنی اور جسمانی تشدد کے الزامات عائد کيے گئے ہيں۔
گجرات ميں 2002ء ميں ہونے والے ہندو مسلم فسادات ميں قريب ايک ہزار افراد مارے گئے تھے، جن ميں اکثريت مسلمانوں کی تھی۔ اُس وقت رياستی وزير اعلیٰ مودی تھے اور اُن پر بارہا يہ الزام لگايا جاتا رہا ہے کہ رياستی حکومت کے سربراہ کے طور پر انہوں نے فسادات کو رکوانے کے ليے ناکافی اقدامات کيے۔ نريندر مودی اپنے خلاف ایسے تمام الزامات مسترد کرتے ہيں جبکہ ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن بھی انہيں بے قصور قرار دے چکا ہے۔
گجرات کے انہی فسادات کے تناظر ميں امريکا نے 2005ء ميں مودی کو ويزا دينے سے بھی انکار کر ديا تھا تاہم رواں برس مئی ميں بھارتی پارليمان کے اليکشن ميں ان کی پارٹی کی کامیابی اور پھر وزیر اعظم منتخب ہونے پر امريکی صدر باراک اوباما نے مودی کو امريکا کے دورے کی دعوت دی تھی۔
واشنگٹن اور نئی دہلی میں حکومتوں نے اس مقدمے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مودی کا پانچ روزہ دورہ یا اس کے مقاصد متاثر نہيں ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے اس بارے ميں ايک بيان ميں روز دے کر کہا کہ حکومتی سربراہان کو امريکا ميں مقدمات کی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ انہوں نے اميد ظاہر کی کہ يہ معاملہ نئی دہلی اور واشنگٹن کے مابين انتہائی اہم اسٹريٹيجک پارٹنرشپ کو مزيد مستحکم بنانے کی کوششوں کو متاثر نہيں کرے گا۔
نئی دہلی میں بھارتی حکومت نے اس مقدمے کو مودی کے دورے سے توجہ ہٹانے کی ايک ’غير سنجيدہ اور بد نيتی پر مبنی‘ کوشش قرار ديا ہے۔ اسی طرح جرمن مارشل فنڈ سے منسلک دھرووا جے شنکر کہتی ہيں کہ يہ نريندر مودی کو شرمندہ کرنے کی کوشش ہے۔ جے شنکر نے البتہ مزيد کہا، ’’ميں سمجھتی ہوں کہ دونوں ہی حکومتيں اس مسئلے کو سرکاری معاملات پر اثر انداز نہيں ہونے ديں گی۔‘‘
مقدمہ دائر کرنے والے کم معروف ہیومن رائٹس گروپ ’امريکن جسٹس سينٹر‘ کے صدر جوزف وٹنگٹن تسليم کرتے ہيں کہ زر تلافی کی ادائیگی کے لیے دائر کيا جانے والا يہ مقدمہ زيادہ آگے تک نہيں جائے گا تاہم ان کے بقول يہ ایک ’علامتی کامیابی‘ ہے۔