مودی کا دورہ سعودی عرب، درجن بھر معاہدے متوقع
28 اکتوبر 2019بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کایہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردینے اور کشمیر کی صورت حال کے متعلق بھارت اپنے موقف کو درست ٹھہرانے اوراس کے خلاف پاکستانی مہم کوناکام بنانے میں مصروف ہے۔
بھارت ۔ سعودی عرب تعلقات نئی بلندیوں پر
بھارت اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ برسوں میں معیشت، اسٹریٹیجک امور، توانائی اور دہشت گردی سمیت متعدد شعبوں میں باہمی تعلقات میں کافی استحکام اور اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ میں اقتصادی تعلقات کے سیکرٹری ٹی ایس تریمورتی کے مطابق، ”بھارت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے وژن 2030ء کے تحت جن آٹھ ملکوں کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ دیگرممالک میں جرمنی، جاپان، چین، فرانس، امریکہ،برطانیہ اور جنوبی کوریا ہیں۔"
ٹی ایس تریمورتی کا مزید کہنا تھا، ”وزیر اعظم کے دورے کے دوران توانائی، ڈیفنس، سول ایوی ایشن اورانسداد دہشت گردی سے متعلق تقریباً ایک درجن معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔ ان میں سب سے اہم انڈیا سعودی عرب اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کونسل کے قیام کا معاہدہ ہے۔ وزیر اعظم مودی اور سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس کونسل کے مشترکہ چیئرمین ہوں گے۔ یہ کونسل دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں ہونے والی پیش رفت پر نگاہ رکھے گی۔"
دفاعی تعلقات اور مشترکہ فوجی مشقیں
بھارت اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات میں بھی حالیہ برسوں کے دوران کافی اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک بحری سلامتی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اس برس کے اواخر میں دونوں ملک مشترکہ بحری فوجی مشق کرنے والے ہیں۔ بھارت سعودی سکیورٹی اہلکاروں اور سائبر سیکورٹی کے شعبہ میں سعودی افسران کوتربیت بھی دے رہا ہے۔
ٹی ایس تریمورتی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے ہے اور وزیر اعظم مودی دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے سلسلے میں تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر سعودی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ تریمورتی نے یاد دلایا کہ سعودی تیل تنصیبات پر پچھلے دنوں ہونے والے میزائل اور ڈرون حملوں کی بھارت نے شدید مذمت کی تھی۔
باہمی تجارت سالانہ 28 بلین ڈالر
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعلقات میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت سالانہ 28بلین ڈالر ہوگئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی سعودی عرب کے ساتھ باہمی تجارت چار بلین ڈالر سے بھی کم ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری پٹرولیم کمپنی ارامکو نے بھارت کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی ریلائنس انڈسٹریز کے ساتھ پٹرولیم کے شعبے میں 75بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ٹی ایس تریمورتی کے مطابق اس وقت تقریباً 26 لاکھ بھارتی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور وہ سالانہ لگ بھگ گیارہ بلین ڈالر رقم وطن بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہرسال دو لاکھ بھارتی مسلمان حج کے لیے اور سات لاکھ سے زائد عمرہ کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے وزیر اعظم مودی کے اس دورے کے دوران ویزہ اور ماسٹرکارڈ کی طرح بھارتی حکومت کی طر ف سے جاری کردہ 'روپے کارڈ‘ کے نام سے کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈ جاری کرنے کے معاہدہ پر دستخط کیے جائیں گے۔
ایف آئی آئی فورم سے خطاب
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کل 29 اکتوبر کو ریاض میں منعقدہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو (ایف آئی آئی) فورم سے خطاب کریں گے۔ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے زیر اہتمام منعقد اس تین روزہ سالانہ اجلاس میں سعودی پالیسی سازوں کے علاوہ دنیا بھرکے اہم تجارتی رہنما شرکت کر رہے ہیں جس میں عالمی اقتصادی رجحانات اور سرمایہ کاری کے ماحول کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ٹی ایس تریمورتی نے بتایا کہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز وزیر اعظم مودی کے اعزاز میں ظہرانہ اور ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان عشائیہ دیں گے۔ مودی کا سعودی عرب کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ وہ 2016ء میں بھی ریاض گئے تھے۔ اس وقت انہیں سعودی عرب کے اعلٰی ترین شہری اعزاز سے نوازا گیا تھا۔
پاکستا نی فضائی حدود سے گذرنے کی اجازت نہیں
اسلام آباد نے وزیر اعظم مودی کو ریاض جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھارت کی درخواست مسترد کردی ہے۔ گزشتہ ستمبر میں بھی مودی کے دورہ جرمنی کے لیے پاکستان نے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس سے قبل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو بھی اپنے فضائی حدود سے گزرنے سے پاکستان نے منع کردیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان عالمی قوانین کے تحت بھارتی وزیر اعظم کو اپنے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کا پابند ہے اور اگر وہ اس سے انکار کرتا ہے تو بھارت انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن سے شکایت کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو بھاری جرمانہ بھی ادا کرنا پڑسکتا ہے۔