موسمیاتی تبدیلیاں: بنگلہ دیش کے بڑھتے مسائل
8 نومبر 2012بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی آبادی 16ملین ہے۔ اس شہر کے باسیوں کی ایک چوتھائی تعداد اُن پناہ گزینوں پر مشتمل ہے، جو ماحولیاتی وجوہات کی بناء پر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے گھر بار زیر آب آ گئے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی کی نذر ہو گئے۔
اس ملک کے دریا جہاں ایک طرف اس کے لیے زندگی کی علامت ہیں، وہیں یہ ایک بڑا خطرہ بھی ہیں۔ سال میں پانچ مہینے اس ملک میں مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون میں بارشیں بتدریج زیادہ سے زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں پانی دریاؤں کے کناروں سے بہہ نکلتا ہے اور ملک کے وسیع تر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
بنگلہ دیش کی مٹی ریتلی ہے اور اُس میں چٹانیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جو کہ پانی کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہیں۔ ایک ایک میٹر کر کے پانی خشکی کو نگلتا چلا جا رہا ہے۔ اب کہیں جا کر لوگوں نے اس صورتِ حال کے آگے بند باندھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
دریائے بُوری گنگا دارالحکومت ڈھاکہ کے بیچوں بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ خشک موسم میں اس پر کشتی کی سیر کرتے ہوئے کنوٹ اوبر ہاگے مان نے، جو بین الاقوامی تعاون کی جرمن انجمن سے وابستہ ہیں اور بند بنانے کے ماہر ہیں، بتایا:’’سیلاب سے متعلق زیادہ سے زیادہ تختیاں نصب کی جا رہی ہیں۔ یہ تصور پہلے پہل 70ء کے عشرے میں سامنے آیا تھا لیکن اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد اب شروع ہوا ہے۔ بڑے دریاؤں کے ساتھ ساتھ کناروں کو زیادہ مضبوط بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی عمل ہے، جو مثلاً اٹھارویں صدی میں دریائے رائن کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اب یہاں بھی اس صورت حال سے نمٹنے کے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلے سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔ یہ ہے دریاؤں اور ہوا کی آلودگی کا مسئلہ۔ اس ملک میں اینٹوں کے بھٹے ہی ساڑھے چھ ہزار بنتے ہیں۔ چونکہ بنگلہ دیش میں قدرتی پتھر نہیں ہوتا اس لیے مٹی اور گارے سے اینٹیں بنائی جاتی ہیں، جنہیں کوئلہ جلا کر پکایا جاتا ہے۔
ترقیاتی بینک KfW سے وابستہ وکٹور بوئچر کہتے ہیں:’’اینٹوں کے ان ہزاروں بھٹوں سے ناقابل اندازہ بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ اب اینٹوں کو پکانے کے لیے ایندھن کے نئے نظاموں والے بہت سے منصوبے جانچے جا رہے ہیں، جن کی مدد سے ان بھٹوں کی توانائی کی ضروریات کو کم از کم نصف کیا جا سکتا ہو۔‘‘
ابھی تو بنگلہ دیش کو ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا ہی سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن آگے چل کر اس ملک کے لیے حالات اور بھی زیادہ نازک شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ اس ملک کے دریاؤں کا پانی کوہ ہمالیہ سے آتا ہے۔ بنگلہ دیش کے باسیوں کے یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اگر زمینی درجہء حرارت میں مزید اضافے اور گلیشئر پگھلنے کے نتیجے میں اور بھی زیادہ پانی ملک میں آنے لگا تو پھر کیا ہو گا۔
C.Elsässer/aa/ai