مولانا عبدالعزیز نے ایک اور مدرسہ ٹیک اوور کر لیا
8 جولائی 2020مولانا عبدالعزیز پیر کی رات اسلام آباد کے ای سیون سیکٹر میں قائم مدرسے جامعہ فریدیہ میں اپنی اہلیہ اور طالب علموں کے ساتھ داخل ہوئے۔ انہوں نے مدرسے کے مہتمم مولانا عبدالغفار کو ان کے عہدے سے ہٹادیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اب وہ خود اس عہدے پر کام کریں گے۔
مولانا کے اس اقدام کی وجہ سے علاقے میں خوف کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں پولیس والوں کو علاقے میں متعین کردیا گیا ہے۔ کوہسار تھانے کے ایک اہلکار طالب حسین نے بتایا کہ اصل مسئلہ جائیداد کی ملکیت کا ہے۔
جھگڑا ملکیت کا
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مولانا عزیز کہتے ہیں کہ مدرسہ ان کا ہے جب کہ مولانا عبدالغفار کا دعوی ہے کہ مدرسہ ان کی ملکیت ہے۔ ابھی تک کسی گڑبڑ کی اطلاع نہیں۔ پولیس کی نفری وہاں موجود ہے جب کہ علاقے کے کچھ حصے کی ناکہ بندی بھی کی گئی ہے تاکہ دوسرے علاقوں سے طالب علم وہاں نہ پہنچ پائیں۔"
اس مسئلے پر مولانا عبدالعزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں نے مولانا عبدالغفار کو ان کے عہدے سے ہٹادیا ہے اور وہ اس فیصلے کو نہیں مان رہے۔ میں نے ان کے پیر بھی پکڑے لیکن انہوں نے یہ فیصلہ نہیں مانا اور وہ اب بھی مدرسے سے ملحقہ گھر میں رہائش پزیر ہیں اور میں بھی ایک سو اسی طلباء کےساتھ موجود ہوں۔"
ان سے پوچھا گیا کہ اگر مولانا عبدالغفار نے مدرسے کی سربراہی نہیں چھوڑی تو پھر؟ ان کا جواب تھا، "اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ کوشش جارہی ہے کہ یہ معاملہ حل ہو جائے لیکن انتظامیہ ان کی مدد کر رہی ہے او حکومت ہم پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ میں نے پہلے بھی دباؤ کا سامنا کیا ہے اور اب بھی کروں گا۔"
ایجنسیوں کی پشت پناہی؟
جامعہ حفصہ کی مہتمم ام حسان کا کہنا تھا کہ ایجسنیاں مولانا عبدالغفار کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ "کچھ لوگوں کو یہ زعم ہے کہ انہوں نے ہمیں شکست دی ہے، وہ کشمیر تو فتح نہیں کر سکے لیکن انہوں نے ہمیں شکست دے دی۔ تو اب انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ ہم اب تک کیوں یہاں ہیں اور زندہ کیوں ہیں۔"
ان کا مذید کہنا تھا کہ مولانا عبدالغفار ادارے کے ملازم تھے۔ " کیا پاکستان بھر کی جامعات میں وائس چانسلرز کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ اس پر تو شور نہیں ہوتا لیکن مولانا عزیز نے ایک مہتمم کو ہٹادیا ہے تو سب متحرک ہوگئے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں۔"
ڈی ڈبلیو نے مولانا عبدالغفار سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ تاہم دونوں گروپوں میں صلح کرنے کی کوشش کرنے والی ایک مذہبی شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مولانا عبدالغفار ادارے کے مالک کے طور پر مولانا عبدالعزیز کو مانتے ہیں اور وہ ان کے فیصلے کا بھی احترام کریں گے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہوجائے۔"
سیاسی و سماجی حلقے اس بات پر پریشان ہیں کہ کس طرح مولانا عبدالعزیز جب چاہتے ہیں کسی بھی جگہ انتظامیہ کے لیے مشکلات کھڑی کردیتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے انہوں نے لال مسجد پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور وہاں کے امام کو ہٹا دیا تھا۔ کئی ہفتوں کی کوششوں کے بعد انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہوں نے لال مسجد خالی کی تھی۔
ریاست کی کمزوری
ناقدین کا خیال ہے کہ ریاست اس طرح کے عناصر سے معاہدے کر کے اپنی کمزوری ظاہر کررہی ہے۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ریاست ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتی۔
معروف سیاست دان سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کا کہنا ہے کہ ملک پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور یہاں ہم شدت پسند عناصر کے نخرے اٹھارہے ہیں۔ "ریاست ان عناصر کو روشن خیالوں اور ترقی پسندوں کے خلاف استعمال کرتی ہے، اس لیے وہ ایکشن نہیں لے رہی۔ پورے ملک میں مدرسوں کی تعداد بڑھتی جارہی اور اس میں سے کئی غیر قانونی طور پر قبضے کی زمین پر بن رہے ہیں۔ بلوچستان میں ہر پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مدرسہ بن رہا ہے۔ اگر ریاست نے اپنی پالیسی نہیں بدلی تو ملک کو بہت نقصان ہوگا کیونکہ شدت پسند عناصر صرف جمہوریت ہی نہیں بلکہ ریاست کے بھی مخالف ہیں۔"
اسلام آباد میں حال ہی میں حکومت نے کئی غریب بستیوں کو گرایا ہے سرکار کا دعوی ہے کہ وہ سرکاری زمین پر تھیں اور غیر قانونی طور پر بنائی گئی تھیں۔ لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ مذہبی رہنماؤں نے بھی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہییے۔ انہوں نے کہا کہ "ریاست اپنی رٹ قائم کرے اور اس مسئلے کو حل کرے۔"
ان کا مذید کہنا تھا کہ بھارت بھی اس مسئلے کو اچھال سکتا ہے۔ "پاکستان پر پہلے ہی ڈبل گیم کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز جیسے عناصر کے خلاف ایکشن لے کر پاکستان دنیا کو ثابت کر سکتا ہے کہ وہ انتہاپسندی کے خلاف واقعی اقدامات اٹھا رہا ہے۔"